Maktaba Wahhabi

44 - 441
اَ لْاٰ ن اذا علقت مخالبنا بہ یرجو النجاۃ ولاۃ حین مناص ’’اب جب کہ وہ ہمارے پنجہ میں پھنس گئے ہیں تو اس سے نکلنا چاہتے ہیں مگر اب ان کے لیے کوئی جائے مفر نہیں ۔‘‘ پھر ابن زیاد نے اس خط کا ابن سعد کو یہ جواب دیا: بسم اللہ الرحمن الرحیم، اما بعد! مجھے تمہارا خط ملا، تم نے جو کچھ لکھا میں نے اسے بخوبی سمجھ لیا ہے، حسین رضی اللہ عنہ سے کہہ دو کہ وہ خود اور ان کے تمام انصار یزید بن معاویہ کی بیعت کریں ، اگر انہوں نے بیعت کر لی تو پھر ہم جو مناسب سمجھیں گے کریں گے۔ جب ابن سعد نے ابن زیاد کا یہ خط پڑھا تو اسے بہت دکھ ہوا۔ وہ کہنے لگا: ابن زیاد کو امن و سلامتی سے کوئی غرض نہیں ہے۔[1] حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اس پیش کش کو ردّ کر دیا، مگر جب انہیں ابن زیاد کے موقف کی سختی اور خطرناکی کا اندازہ ہوا تو انہوں نے ابن سعد سے دوبارہ ملاقات کر کے اس سے فرمایا کہ میں اس وقت تمہارے سامنے تین تجاویز پیش کرتا ہوں تم ان میں سے جسے چاہوں میرے لیے پسند کر لو: [2] الف: میں جدھر سے آیا ہوں مجھے اس طرف واپس جانے دیا جائے۔ ب: مجھے مسلمانوں کی کسی سرحد کی طرف نکل جانے دیا جائے وہاں میں ان لوگوں میں ایک عام شخص بن کر رہوں گا اور میرا نفع و نقصان ان کے نفع و نقصان کے ضمن میں ہو گا۔ ج: تم میرے راستے سے ہٹ جاؤ تاکہ میں شام چلا جاؤ ں اور اپنا ہاتھ یزید بن معاویہ کے ہاتھ میں دے دوں ۔[3] ان تجاویز میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کے پاس جانے کے مطالبہ سے موافقت کر لی تھی۔[4] اس کے بعد عمر بن سعد نے ابن زیاد کی طرف خط لکھ کر اسے بتایا کہ یہ پیچیدہ مسئلہ حل کر لیا گیا ہے اور سلامتی کا ماحول میسر آنے کے قریب ہے۔ اب اس کے لیے صرف ابن زیاد کی موافقت درکار ہے۔[5] عین ممکن تھا کہ ابن زیاد اس سے موافقت کر لیتا اور پھر انہیں یزید کے پاس بھیج دیتا، مگر شمر بن ذوالجوشن نے جو خط وصول کرتے وقت اسی مجلس میں بیٹھا تھا مداخلت کرتے ہوئے ابن زیاد کی اس رائے پر اعتراض کر دیا کہ حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کے پاس بھیج دیا جائے۔ اس نے ابن زیاد کے سامنے اس امر کو واضح کیا کہ
Flag Counter