Maktaba Wahhabi

43 - 441
زیاد کو ان کے معاملے کے بارے میں لکھ دے اور حسین رضی اللہ عنہ یزید کو ابن زیاد کے بارے میں ۔[1] چنانچہ آپ عذیب اور قادسیہ کے راستے سے شام کے راستے پر شمال کی طرف مڑ گئے۔[2] اس دوران میں حر بن یزید بھی آپ کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ وہ آپ کو عدم قتال کی نصیحت کر رہا تھا اس نے آپ پر یہ بات واضح کر دی کہ اگر آپ قتال کریں گے تو قتل کر دئیے جائیں گے۔[3] جب نماز کا وقت ہوتا تو حسین رضی اللہ عنہ فریقین کو نماز پڑھایا کرتے۔[4] ۴۔ عمر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے ملاقات اور مذاکرات:… جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کربلا پہنچے تو عمر بن سعد کے شہسوار آپ کے سامنے کھڑے تھے، اس وقت اس کے ساتھ شمر بن ذوالجوشن اور حصین بن تمیم بھی تھا۔[5] جس لشکر کی عمر بن سعد قیادت کر رہا تھا وہ چار ہزار کی نفری پر مشتمل تھا۔ جب ابن زیاد نے اس سے حسین رضی اللہ عنہ سے جنگ کا مطالبہ کیا تو اس نے اسے ردّ کر دیا مگر جب اس نے اسے منصب سے معزول کر کے اسے قتل کرنے اور اس کا گھر گرانے کی دھمکی دی تو وہ اس کے لیے آمادہ ہو گیا۔[6] جب حسین رضی اللہ عنہ کربلا پہنچے تو انہیں شہسواروں نے گھیر لیا۔ اس پورے علاقہ کو ’’طرف‘‘ کہا جاتا ہے اور پھر انہوں نے عمر بن سعد کے ساتھ مذاکرات شروع کر دئیے، اس دوران میں آپ نے اس پر اس امر کو واضح کر دیا کہ وہ صرف اہل کوفہ کے مطالبہ پر یہاں آئے ہیں اور دلیل کے طور پر انہوں نے دو بڑے بڑے تھیلوں کی طرف اشارہ کیا جن میں انہیں کوفہ بلانے والوں اور ان سے بیعت کرنے والوں کے خطوط اور نام موجود تھے۔ عمر بن سعد نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے جو کچھ سنا اس کی روشنی میں اس نے ابن زیاد کو لکھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم، میں جب یہاں آ کر حسین رضی اللہ عنہ کے مقابل اترا تو ان کے پاس ایک قاصد بھیجا، میں نے ان سے دریافت کیا کہ وہ یہاں کس مقصد کے لیے آئے ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں ؟ تو انہوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ مجھے اس شہر کے لوگوں نے خطوط لکھے، میرے پاس ان کے قاصد آئے اور اس بات کے خواست گار ہوئے کہ میں یہاں آؤ ں ، اس پر میں ادھر چلا آیا، اب اگر انہیں میرا آنا ناگوار ہے اور انہوں نے قاصدوں کے ذریعے سے جو کچھ کہلا بھیجا تھا اب ان کی رائے اس کے خلاف ہو گئی ہے تو میں واپس چلا جاؤ ں گا۔ جب یہ خط ابن زیاد کو سنایا گیا تو اس نے یہ شعر پڑھا:
Flag Counter