۲۔ حسین رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کو واپس جانے کی اجازت دیتے ہیں :… جب حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو اپنے عم زاد مسلم بن عقیل کی شہادت اور ان کے ساتھ لوگوں کی بے وفائی کی خبر ملی تو انہوں نے اس سے اپنے ساتھیوں کو مطلع کرتے ہوئے فرمایا: تم میں سے جو شخص واپس جانا چاہتا ہو وہ ایسا کر سکتا ہے، ان کا یہ اعلان سن کر کئی لوگ اِدھر اُدھر ہو گئے۔[1] ان کے ساتھ باقی رہ جانے والے لوگوں میں سے بعض نے ان سے کہا: ہم آپ کو اللہ کا واسطہ دیتے ہیں کہ آپ یہیں سے لوٹ جائیں ، کیونکہ کوفہ میں آپ کا کوئی بھی مددگار اور شیعہ نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں تو یہ خوف لاحق ہے کہ وہ آپ کے خلاف لڑیں گے۔ اس پر مسلم بن عقیل کے بھائی جوش میں آکر کہنے لگے: اللہ کی قسم! ہم اپنے بھائی کا بدلہ لے کر رہیں گے یا ان کی طرح موت کا ذائقہ چکھ لیں گے۔[2]
۳۔ حربن یزید سے ملاقات:… لوگ حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے الگ ہونا شروع ہو گئے یہاں تک کہ آپ کے ساتھ وہی چند لوگ باقی رہ گئے جو مکہ سے آپ کے ساتھ آئے تھے۔ آپ نے اپنا سفر جاری رکھا یہاں تک کہ آپ مقام شراف تک جا پہنچے، وہاں آپ نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ پانی پی لیں اور بھر بھی لیں ، پھر وہاں سے روانہ ہوئے یہاں تک کہ جب دوپہر ہو گئی تو ان کے ساتھیوں میں سے ایک شخص نے اللہ اکبر کہا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بھی اللہ اکبر کہا اور پوچھا: تم نے اللہ اکبر کس بات پر کہا؟ اس نے جواب دیا: مجھے کھجوروں کے درخت نظر آ رہے ہیں ۔ یہ سن کر دو آدمی کہنے لگے: ہم نے تو یہاں کھجوروں کے درخت نہیں دیکھے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تم کیا دیکھ رہے ہو؟ انہوں نے جواب دیا: ہمیں تو مقدمۃ الجیش معلوم ہوتا ہے۔ اس پر وہ آدمی کہنے لگا: مجھے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔[3] پھر واقعی حر بن یزید اپنی ایک ہزار فوج کی قیادت کرتے ہوئے آپ کے سامنے کھڑا تھا، جب حسین رضی اللہ عنہ نے اس سے واپس جانے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا تو اس نے اس سے انکار کر دیا اور آپ کو بتایا کہ مجھے کوفہ تک آپ کے ساتھ رہنے کا حکم ہے۔ اس پر حسین رضی اللہ عنہ نے ایسے خطوط سے بھرے ہوئے دو تھیلے اس کے سامنے رکھ دئیے جن میں ان سے کوفہ آنے کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر حر اور اس کے ساتھیوں نے ان خطوط کے ساتھ اپنے کسی بھی تعلق سے انکار کر دیا۔[4] حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے حر کے ساتھ کوفہ جانے سے انکار کر دیا اور وہ اس پر سختی سے جمے رہے۔ اس پر حر نے تجویز پیش کی کہ آپ کسی ایسے راستے پر چلیں جو نہ کوفہ کو جاتا ہو اور نہ مدینہ منورہ کو، اس تجویز کا مقصد یہ تھا کہ حر ابن
|