گیا تھا۔[1] مگر جب وہ قادسیہ پہنچا تو صاحب شرطہ حصین بن تمیم نے اسے گرفتار کر کے ابن زیاد کے پاس کوفہ بھیج دیا جس نے اسے وہاں آتے ہی قتل کر ڈالا۔[2]
اس کے بعد حسین رضی اللہ عنہ نے ایک قاصد مسلم بن عقیل کے پاس بھیجا مگر وہ بھی حصین بن تمیم کے ہاتھوں گرفتار ہو گیا جس نے اسے بھی ابن زیاد کے پاس بھیج دیا اور اس نے اسے بھی قتل کروا ڈالا۔[3] ان حفاظتی اقدامات نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے پیروکاروں کو بہت متاثر کیا اب انہیں یقین ہو گیا تھا کہ اب جو شخص بھی حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے ساتھ کوئی تعلق رکھے گا اس کا انجام قتل ہو گا۔ لہٰذا جو کوئی بھی حسین رضی اللہ عنہ کی طرف داری کا سوچ رہا ہے اسے یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ اس کا انجام انتہائی الم ناک ہو گا۔[4] ابن علی رضی اللہ عنہما کو احساس ہو رہا تھا کہ کوفہ میں حالات سازگار نہیں ہیں ۔ خاص طور پر اس وقت جب بادیہ نشین لوگوں نے انہیں یہ خبر دی کہ کوفہ میں کسی بھی شخص کو نہ تو داخل ہونے کی اجازت ہے اور نہ اس سے باہر آنے کی۔[5] اس قسم کی خطرناک اطلاعات انہیں عرب قبائل کے بعض لوگوں سے بھی ملی تھیں۔ ان لوگوں نے انہیں اس خطرے سے بھی آگاہ کر دیا تھا جس کی طرف وہ خود بڑھ رہے ہیں ۔ مگر حسین رضی اللہ عنہ تھے کہ وہ اپنی مہم کی کامیابی کی دلیل کے طور پر اپنے سے بیعت کرنے والے ان کثیر التعداد ناموں کی طرف اشارہ کر رہے تھے جو ان کے پاس محفوظ تھے۔[6] جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ زبالہ[7] یا شراف[8] کے مقام پر پہنچے تو انہیں مسلم بن عقیل، ہانی بن عروہ اور عبداللہ بن یقطر کے قتل کی خبر ملی علاوہ ازیں انہیں یہ دل فگار اطلاع بھی ملی کہ اہل کوفہ نے ان کی نصرت و معاونت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔[9] اس اچانک اور الم ناک خبر سے حسین رضی اللہ عنہ شدید طور پر متاثر ہوئے، یہی وہ لوگ تھے جو ان سے سب سے زیادہ قریب تھے جنہیں قتل کر دیا گیا تھا جبکہ اہل کوفہ ان کی نصرت سے دست بردار ہو چکے تھے۔[10]
|