طرح عمرو بن سعید بن العاص نے اسے حسین رضی اللہ عنہ سے تعرض کرنے سے منع کیا اور ان کے ساتھ معاملہ کرتے وقت محتاط رہنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: اما بعد! حسین بن علی رضی اللہ عنہ تیری طرف آ رہے ہیں اور اس قسم کے موقعہ پر یا تو تو آزاد ہو گا یا غلاموں کی طرح غلام بن جائے گا۔[1]
کوفہ جاتے وقت ’’ذاتِ عرق‘‘ کے مقام پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ملاقات مشہور شاعر فرزدق کے ساتھ ہوئی، آپ نے اس سے اہل کوفہ کے بارے میں دریافت کیا تو وہ کہنے لگا: اہل کوفہ آپ کو بے یارومددگار چھوڑ دیں گے لہٰذا آپ ان لوگوں کے پاس نہ جائیں ، اس لیے کہ آپ ان لوگوں کے پاس جا رہے ہیں جن کے دل آپ کے ساتھ ہیں اور تلواریں بنو امیہ کے ساتھ۔[2] جب یزید بن معاویہ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مکہ سے کوفہ کے لیے روانگی کا علم ہوا تو اس نے ابن زیاد کو لکھا: مجھے معلوم ہوا ہے کہ حسین ( رضی اللہ عنہ ) عراق کے لیے روانہ ہو چکے ہیں ، ان کی وجہ سے تیرا زمانہ، تیرا شہر اور خود تو آزمائش سے دوچار ہو گے، اس نازک موقع پر یا تو توآزاد ہو جائے گا یا غلاموں کی طرح دوبارہ غلام بن جائے گا۔[3]
۱۔ ابن زیاد اور تدابیر امن:… ابن زیاد نے اہل کوفہ اور حسین رضی اللہ عنہ کے درمیان رابطہ منقطع کرنے کے لیے اور کوفہ پر اپنا اقتدار مستحکم کرنے کے لیے کئی تدابیر اختیار کیں ، اس نے جنگجو لوگوں کو جمع کیا اور ان کی وفاداریاں خریدنے کے لیے ان میں عطیات تقسیم کیے۔[4] پھر صاحب شرطہ حصین بن تمیم طہوی کو بھیجا تاکہ وہ قادسیہ میں پڑاؤ کرے۔ قادسیہ سے مقام خفضان اور قادسیہ سے قطقطان اور لعلع کے مقام تک شہسواروں کو منظم کیا اور حصین بن تمیم کو حکم دیا کہ وہ ہر اجنبی شخص کو گرفتار کرے۔[5] ابن زیاد نے مقام واقصہ سے شام کے راستے تک اور بصرہ کے راستے تک آنے جانے والے ہر شخص کو حراست میں لینے کا بھی حکم جاری کیا۔[6]
اس آخری کارروائی کا مقصد اہل کوفہ اور حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے درمیان باہمی روابط کو منقطع کرنا تھا، آپ کوفہ کی طرف پیش قدمی کر رہے تھے مگر کوفہ میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں سے لاعلم تھے جب ’’ذوالریہ‘‘ نامی وادی کی بلند جگہ پر پہنچے تو قیس بن مسہر صیداوی کو ایک خط دے کر کوفہ بھیجا جس میں انہیں اپنی آمد سے مطلع کیا
|