اس روایت کے باطل ہونے کی یہی دلیل کافی ہے کہ اس روایت کو بیان کرنے والے اس روایت میں متفرد اور یہ روایت دلیل سے تہی دست و دامن ہے اور اس کے راوی سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ سے غداری کرنے والے ہیں ۔ جبکہ صحیح روایت تاکید کے ساتھ یہ بیان کرتی ہیں کہ جسد حسین رضی اللہ عنہ کا مدفن غیر معروف ہے اور جو لوگ اس کی معرفت کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت پر افترا پردازی کرتے ہیں ۔[1]
ابن جریر وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ قتل حسین رضی اللہ عنہ کی جگہ کے آثار مٹ چکے ہیں حتیٰ کہ اب کوئی اس جگہ کی تعیین سے آگاہ نہیں رہ گیا۔[2]
بے پناہ قیل و قال کے باوجود حقیقت یہی ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنی شہادت کے بعد ایک مجسم قبر کا نام اور مقام نہیں بلکہ وہ تو ایک روحانی قدر اور معنوی پیغام ہیں جو اپنے مدعیان محبت کو اس بات کا درس دے رہے ہیں کہ اصل عزت و شرافت کتاب و سنت سے تمسک میں ہے اور مومن وہ ہے جو کتاب و سنت کے دشمنوں سے ہوشیار اور خبردار رہے۔
دمشق:
اسے بیہقی نے ایک بلا اسناد روایت میں ذکر کیا ہے کہ سر حسین رضی اللہ عنہ دمشق میں دفن ہے بے شک یہ ایک سرگشتہ قول ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ۔[3]
ایک روایت اس بارے میں ابن عساکر نے بھی نقل کی ہے لیکن وہ روایت مجہول ہے۔[4] لہٰذا یہ روایت ساقط الاعتبار ہو گی جو کسی بھی حال میں معتمد و معتبر نہ ہو گی۔[5]
ذہبی نے بھی ایک روایت میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ سر حسین رضی اللہ عنہ دمشق میں دفن ہے لیکن یہ روایت بے حد ضعیف ہے[6] جس کا سیاق صحت و مصلحت دونوں کے منافی ہے۔
رقہ[7]:
دور حاضر میں روافض اس بات پر بے پناہ پیسہ اور قوت خرچ کر رہے ہیں کہ عامۃ الناس کا رخ کسی نہ
|