اہم وقفہ:
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِہِمْ وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّہٰتُہُمْ﴾ (الاحزاب: ۶)
’’نبی مومنین کے ساتھ خود ان کے نفس سے بھی زیادہ تعلق رکھتے ہیں ، اور آپ کی بیویاں ان کی مائیں ہیں ۔‘‘
ازواج مطہرات اہل ایمان کی مائیں ہیں ، والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور بھائی مہاجرین اور انصار ہیں جو اس دعا میں مراد ہیں :
﴿رَبَّنَآ اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ﴾ (الحشر: ۱۰)
’’اے ہمارے پروردگار! ہماری اور ہم سے پہلے ایمان لانے والے ہمارے بھائیوں کی مغفرت فرما۔‘‘
یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گھرانہ ہے، جو شخص ازواج مطہرات میں سے کسی پر طعن و تشنیع کرے گا تو ایمانی نسب سے دھتکارا ہوا اور مردود ہے، کیونکہ اگر وہ مومن ہوتا تو ازواج مطہرات پر الزام تراشی نہ کرتا، کیونکہ بیٹا اپنی ماں پر طعن و تشنیع نہیں کیا کرتا۔ احترام، عزت اور نسب پر فخر کرنے جیسے حقوق و واجبات میں اس ماں کا رشتہ، حقیقی ماں کے رشتے کی طرح ہی ہے۔
کیا ان عورتوں سے زیادہ با عزت اور شریف مائیں ہو سکتی ہیں ، جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے منتخب کیا؟ بلکہ اللہ عزوجل نے ان کا انتخاب اپنے نبی کے لیے کیا، چنانچہ اپنے نبی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
﴿لَایَحِلُّ لَکَ النِّسَآئُ مِنْ بَعْدُ وَلَآ اَنْ تَبَدَّلَ بِہِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّلَوْ اَعْجَبَکَ حُسْنُہُنَّ اِلَّا مَا مَلَکَتْ یَمِیْنُکَ وَکَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ رَّقِیْبًاo﴾ (الاحزاب: ۵۲)
’’ان کے علاوہ اور عورتیں آپ کے لیے حلال نہیں ہیں ، اور نہ یہ درست ہے کہ آپ ان بیویوں کی جگہ دوسری بیویاں کر لیں اگرچہ آپ کو ان کا حسن بھا جائے، مگر جو آپ کی باندی ہو، اور اللہ ہر چیز کا نگران ہے۔‘‘
حضرت زینب بن جحش رضی اللہ عنہا کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَلَمَّا قَضٰی زَیْدٌ مِّنْہَا وَطَرًا زَوَّجْنٰکَہَا لِکَیْ لَا یَکُوْنَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ حَرَجٌ فِیْٓ اَزْوَاجِ اَدْعِیَآئِہِمْ اِذَا قَضَوْا مِنْہُنَّ وَطَرًا وَ کَانَ اَمْرُ اللّٰہِ مَفْعُوْلًاo﴾ (الاحزاب: ۳۷)
’’جب زید کا اس سے جی بھر گیا تو ہم نے اس کی شادی آپ کے ساتھ کر دی، تاکہ مسلمانوں پر
|