ہو گا۔اللہ کی قسم! دورِ حاضر میں وہی دھوکے میں پڑا ہے جو انہیں صحیح سمجھتا ہے اور وہ خونِ حسین رضی اللہ عنہ کے دل فگار واقعہ کو بلائے طاق رکھے ہوئے ہے اور اس نے آل بیت اطہار کے خونوں کو یکسر فراموش کر دیا ہے اور اسے واقعہ کربلا سے قبل وقوع پذیر ہونے والا سیّدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دل دہلا دینے والا واقعہ بھی یاد نہیں رہا۔
فرزدق شاعر یہ بھی کہتا ہے: ہم حج کرنے نکلے۔ جب ہم مقام صفاح پہنچے تو ایک قافلہ ملا۔ انہوں نے قبائیں پہنی ہوئی تھیں ان کے پاس چمڑے سے بنی ڈھالیں تھیں ۔ جب میں قریب ہوا تو کیا دیکھا کہ وہ تو حسین بن علی رضی اللہ عنہما ہیں ۔ میں نے پوچھا: کیا آپ ابو عبداللہ ہیں ؟ انہوں نے فرمایا: (ہاں ) اے فرزدق! تیرے پیچھے کیا ہے؟ فرزدق بولا: آپ لوگوں کو سب سے زیادہ محبوب ہیں اور فیصلہ آسمانوں پر ہے جبکہ تلواریں بنو امیہ کے ساتھ ہیں ۔ فرزدق کہتا ہے: پھر میں مکہ داخل ہوا تو سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے دریافت کرنے ان کے پاس گیا۔ ہم نے ان سے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے خروج کے بارے میں پوچھا تو فرمانے لگے: تمہیں ان میں اسلحہ کی مبارک نہ ہو۔ فرزدق ان کی یہ بات نہ سمجھ سکا، اسی لیے شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کے بعد وہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ پر طعن کیا کرتا تھا، وہ اس بات کا مطلب یہ سمجھا تھا کہ ’’انہیں تلواریں قتل نہ کریں گی۔‘‘ سفیان کہتے ہیں کہ فرزدق اس بات کا دوسرا مطلب سمجھا تھا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی مراد یہ تھی کہ ان کے بارے میں جو تقدیر میں طے ہو چکا ہے اس کی بنا پر انہیں قتل ہونا نقصان نہ دے گا۔[1] یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں جنت کی اور اس بات کی خوش خبری دے چکے تھے کہ وہ نوجوانانِ جنت کے سردار ہوں گے۔
سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے فرزند ارجمند علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب کہتے ہیں : جب حضرت مسلم بن عقیل کا بھیجا ہوا قاصد آپ کو کوفہ سے چار مراحل کے فاصلے پر ملا اور اس نے مسلم کے قتل ہو جانے کی دل خراش خبر سنائی تو علی نے اپنے والد حسین رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: ابا جان! اب لوٹ چلیے۔ یہ سن کر بنو عقیل بول پڑے: یہ وقت اب لوٹنے کا نہیں ۔[2] اس پر آپ مجبور ہو کر چلتے رہے کہ شاید ان تک وہ شر نہ پہنچے جو ان کی راہ تک رہا تھا۔
ان لوگوں کا ذکر جنہوں نے خطوط لکھ کر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو خروج کرنے سے منع کیا:
٭… عمرہ بنت عبدالرحمن رضی اللہ عنہا نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو خط میں یہ لکھا:
’’جو آپ چاہتے ہیں ، وہ بہت بڑی بات ہے۔‘‘ اور اس خط میں آپ کو اطاعت کرنے اور
|