اس سے زیادہ حیرت کا امر اور کیا ہو گا کہ ایک شخص حدیث کی صحت کو تسلیم کر لینے کے بعد بھی مقابلہ و مکابرہ کرتے ہوئے اس کو ردّ کرتا ہے اور یہ گمان کرتے ہوئے ردّ کرتا ہے کہ اس حدیث کا اطلاق اس کے ہم مذہبوں کی بدعات و منکرات پر نہیں ہوتا۔ جبکہ تیجانی اس بات کا مدعی بھی ہے کہ شیعہ علماء ان بدعات کو حرام کہتے ہیں ۔ اب کون جھوٹا اور کون سچا ہے۔
تیجانی کا ایک اور جھوٹ:
اس امر میں کوئی خِفا نہیں کہ اکثر علماء جیسے محسن الامین اور السید القائد علی خامنائی، آیۃ اللہ محمد حسین فضل اللہ وغیرہ بے شمار علماء نے ان امور کے عدمِ جواز کا فتویٰ دیا ہے۔[1]
تیجانی جھوٹ بولنے کا عادی ہے جیسا کہ اس کی تمام تالیفات دروغ بیانیوں کا مظہر ہیں ۔ یہ سب کچھ موصوف تیجانی تقیہ کی آڑ لے کر کرتے ہیں جس پر ایک شیعہ ماجور اور مغفور ہوتا ہے۔ تیجانی مسلمانوں کے سامنے شیعیت کی صورت کو ملمع کر کے پیش کرنا چاہتا ہے کیونکہ اس کی کتابیں لوگوں میں بکثرت پھیلائی جاتی ہیں بلاشبہ یہ اس کا کذب اور دجل ہے۔ تیجانی کی یہ عبارت سراپا جھوٹ ہے۔ خامنائی (انقلاب کا بانی) ان تمام امور کو جائز قرار دیتا ہے جیسا کہ ہم نے گزشتہ میں نقل کیا ہے۔ جبکہ یہ تیجانی خامنائی کی بابت اس بات کا انکار کرتا ہے۔
محمد حسین فضل اللہ نرم سینہ کوبی کو جائز کہتا ہے جیسا کہ گزشتہ میں بیان ہوا۔ اس لیے تیجانی کا یہ کہنا سراسر جھوٹ ہے کہ ’’اکثر علماء نے ان شعائر کے عدمِ جواز کا فتویٰ دیا ہے‘‘ اور مرتضیٰ فیروز آبادی نے تو تیجانی کو بالکل ہی رسوا کر کے رکھ دیا ہے۔ وہ کہتا ہے: ’’نہ پہلے کبھی سنا اور نہ آئندہ سنیں گے کہ کسی عالم نے ان حسینی شعائر پر نکیر کی ہو۔‘‘
اب کیا ہم تیجانی کو سچا مانیں جو فتاوی اور نصوص کی تکذیب کرتا ہے یا شیعہ کے کبار علماء کو سچا مانیں ؟!!
عاشوراء کے روزے کا انکار:
شیعہ عاشوراء کے روزے کا یہ کہہ کر انکار کرتے ہیں کہ اس باب میں مروی روایات کو امویوں نے ایجاد کیا ہے۔ جمال الدین بن عبداللہ نے ’’صیام عاشوراء‘‘ نامی کتاب لکھ کر اس میں عاشوراء کے روزہ سے متعلق ہر قسم کی روایات کو جمع کر کے ان روایات کی تائید کی ہے جن کی بدولت شیعہ مذہب کی نصرت و حمایت ہوتی ہے۔ لیکن موصوف اپنی اس کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ موصوف نے اس باب میں بے حد طول بیانی سے کام لیا ہے اور روایات کا ایک ڈھیر لگا دیا ہے۔ اب ان روایات کی تعداد بھی کم نہیں جن میں اس دن
|