کو اشعار کی شکل میں ذکر کرتے تھے۔‘‘[1]
اور ایک موقعہ پر یہ جواب دیتے ہیں :
’’حسینیات کی بنیاد مساجد کے احترام کے تناظر میں ہے۔ لوگوں کو عزاء حسین علیہ السلام کے سننے اور وعظ و ارشاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان میں جنبی اور حائض بھی ہوتے ہیں ۔ اب چونکہ مساجد کو نجس کرنا جائز نہیں اس لیے حسینیات کو مساجد کے پہلو میں منعقد کیا جاتا تھا۔ یہ سوچ کر ایسا نہیں کیا گیا کہ یہ مساجد میں مجالس کے انعقاد کا بدل ہے۔ بلکہ ایک تو اس میں مساجد کی حمایت و حفاظت ہے، دوسرے کھلی جگہ کا میسر آنا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ آ کر حسینی نوحوں اور ذکر کو سن سکیں اور چاہے مساجد ناپاک بھی ہو جاتی ہوں ۔ ہم نہیں جانتے کہ حسینیات کی ابتدا کب سے ہوئی ہے۔‘‘[2]
ذرا موصوف کی قلابازیوں کا نظارہ تو کیجیے کہ ابتدا میں حسینیات کے آغاز کو ائمہ اہل بیت کے سر دھرتے ہیں جبکہ آگے چل کر صاف مکر جاتے ہیں اور دو باتوں کو ان حسینی رسومات کی تاسیس کی وجہ قرار دیتے ہیں :
(۱)… مساجد کا احترام
(۲)… جگہ کی وسعت
جبکہ اخیر میں چل کر صاف کہہ جاتے ہیں کہ ان رسومات کی بنیاد کس نے رکھی، ہمیں معلوم نہیں ۔
نوحہ خوانی اور سینہ کوبی کی بدعت کے موجد اہل تشیع ہیں :
اہل تشیع کی ماتمی رسومات پر خود ایک صاحب قلم و قرطاس اور زبردست شیعہ مبلغ داعی عبد الحسین شرف الموسوی نے ’’المجالس الفاخرۃ فی ماتم العترۃ الطاہرۃ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے اور اپنی قدیم عادت کے مطابق موصوف نے بدعات و خرافات کے دفاع کی زبردست کوشش کی ہے۔
چنانچہ وہ ماتم کے جواز کا ثبوت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے لخت جگر سیّدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر آنسو بہانے سے دینے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔[3]
ہم مانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کی وفات پر روئے۔ لیکن کیا وہ سب کچھ بھی کیا جو آج بلکہ گزشتہ کئی صدیوں سے ماتم حسینی کے نام پر ہوتا آرہا ہے؟!!
|