Maktaba Wahhabi

331 - 441
کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عزیز چچا سیّدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت پر بھی ایسا کچھ کیا جو آج یہ ذاکر رو رو کر اور دوسروں کو رُلانے کے لیے کرتے ہیں ؟!! کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی کسی مرنے والے کے ذکر کے وقت اسی طرح شیریں شربت تقسیم کیا کرتے تھے جیسے کسی کی موت کے ذکر کے وقت یہ لوگ آج کرتے ہیں؟!! پھر موصوف عبدالحسین نے قیاس سے کام کیوں لیا جو ان کے مذہب میں حرام ہے؟! موصوف لکھتا ہے: ’’ائمہ کی سیرت مرثیہ پڑھنے اور نوحہ کہنے سے معمور ہے اور انہوں نے نسل در نسل اپنے اولیاء کو حسین کے غم میں نوحہ کرنے اور ماتم کرنے کی وصیت کی ہے۔‘‘[1] موصوف نوحہ خوانی اور سینہ کوبی وغیرہ پر اعتراض کرنے والوں کو جواب دیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اگر یہ ملامت گر احمق جان لیتا کہ ہمیں آلِ بیت کا کتنا غم ہے اور ہم ان کے کتنے مددگار ہیں اور ہم نے ان کے دشمنوں سے کیسی گمبھیر جنگ چھیڑ رکھی ہے تو اس کی گردن ہمارے اس بے پناہ حزن و ملال کے آگے جھک جاتی۔ اس نوحہ خوانی اور مرثیہ خوانی کی حکمت جان کر اس کا سر خم ہو جاتا اور ان اسرار میں آ کر پناہ لیتا جو ہم صدیوں سے چھپائے آتے ہیں ۔‘‘[2] شیعی عالم دکتور ہادی فضل اللہ نوحہ، ماتم اور سینہ کوبی وغیرہ کی بابت شیعہ علماء کے موقف کی دو قسمیں بیان کرتا ہے: (۱)… مدرسہ اصلاحیہ: یہ مجددین کا فریق ہے جن میں سر فہرست محسن الامین کا نام آتا ہے، ان کے نزدیک یہ حسینی رسومات حرام اور بدعت ہیں کیونکہ ان میں جانوں کے ضیاع کا اندیشہ ہے۔ جیسا کہ زنجیر زنی کرنے والے خود اپنا بے جا خون بہاتے ہیں اور بسا اوقات ہلاک بھی ہو جاتے ہیں ۔ ان کے نزدیک واقعہ کربلا کا ڈرامہ بنا کر دکھانا حرام ہے۔[3] (۲)… مدرسہ محافظہ: یہ محافظین کا فریق ہے، جن میں سرفہرست عبدالحسین صادق کا نام آتا ہے۔ اس مدرسہ (سکول آف تھاٹ) کا مرکزی خیال یہ ہے کہ جب تک کسی کام کے حرام ہونے کی نص نہ آ جائے تمہارے لیے ہر بات مباح ہے چاہے وہ ایذا اور اذیً تک ہی جا پہنچائے۔ دوسرے ان کے نزدیک مدرسہ اصلاحیہ نے جن جن باتوں کو حرام قرار دیا ہے، ان میں سے کوئی بات
Flag Counter