کرنا، نام نہاد بے علم و عمل مسلمانوں کو حسینیت اور مظلومیت کے ناموں پر اور نعروں کی آڑ میں کتاب و سنت کے خلاف ابھارنا اور ان کے نزدیک حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شخصیات کو مشکوک بنانا ہے۔ جیسا کہ دَورِ حاضر میں اس کے واضح آثار نظر آنے لگے ہیں ۔ اس لیے علماء کی یہ خصوصی ذمہ داری بنتی ہے کہ اعدائے صحابہ کے چہروں کو بے نقاب کریں ، آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے اصلی مجرموں کو سامنے لائیں ، جو آج بھی امت مسلمہ کو تباہی کے گھاٹ اتارنے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں ، علماء کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی تربیت کر کے انہیں کتاب و سنت کے حقیقی دشمنوں سے آگاہ کریں ، ان کے تمام وسائل کا پردہ چاک کریں ، ان کے معاونین کو بے نقاب کریں اور اعدائے صحابہ نے اسلامی ثقافت اور جغرافیہ پر جو جو ستم بھی ڈھائے ہیں ان کے تدارک کی تدابیر اختیار کریں ۔ بالخصوص ان نام نہاد ، دھوکا باز، گمراہ اورمفاد پرست مسلمانوں سے امت کو خبردار کریں جو حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں اور ان کے کینہ پرور قاتلوں میں برابری کرنے کی نامسعود کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔
مناسب ہے کہ اس مقام پر اپنے معزز قارئین کے سامنے مظلومیت اور حسینیت کے نام پر کیے جانے والے باطل افعال اور گمراہ رسومات کی حقیقت خود رافضی مآخذ و مصادر سے کھول کر بیان کر دی جائے تاکہ امت مسلمہ کو ان افعال کی گمراہی اور خطرناکی کا علم دلیل کے ساتھ حاصل ہو اور وہ جان لیں کہ ان باطل رسومات کی آڑ میں دراصل حضرات صحابہ کرام اور بالخصوص آل بیت رسول کے عقیدہ و عمل کو باطل قرار دینے کی گھناؤ نی سازش کی جا رہی ہے جو صدیوں سے جاری ہے تاکہ امت مسلمہ خوابِ غفلت سے بیدار ہو۔
حسینی رسومات ائمہ کے عہد میں نہ تھے:
اس بات کا اقرار خود اہل تشیع کے علماء کو بھی ہے کہ ماتم، تعزیہ، سینہ کوبی، زنجیر زنی وغیرہ کے شعائر کا خود ائمہ کے دور میں وجود تک نہ تھا۔ چنانچہ اہل تشیع کا مشہور عالم نجم الدین ابو القاسم المعروف بہ ’’المحقق الحلی‘‘ کہتا ہے کہ
’’تعزیہ اٹھانا اور جلوس نکالنا دور صحابہ رضی اللہ عنہم میں موجود نہ تھا اورنہ ائمہ کے دور میں اس کا نام و نشان اور تذکرہ ہی ملتا ہے بلاشبہ تعزیہ بنانا اور جلوس نکالنا اسلاف کی سنت کے خلاف ہے۔‘‘[1]
ماتم، حسینی شعائر وغیرہ بدعت ہیں جن کا ترک واجب ہے، روافض کے شیخ، آیت اللہ العظمی جواد التبریزی بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں ۔ چنانچہ جب شیخ سے ان شعائر و رسومات کی بابت سوال کیا گیا کہ ائمہ کے ادوار میں یہ شعائر نہیں تھے تو ان کا حکم کیا ہے؟ تو موصوف اس کا یہ جواب دیتے ہیں :
|