Maktaba Wahhabi

326 - 441
’’اہل تشیع ائمہ کے ادوار میں تقیہ کر کے جیتے تھے۔ ائمہ کے ادوار میں ان شعائر کا عدم وجود ان کے عدمِ امکان کی وجہ سے اس بات کی دلیل نہیں کہ دور حاضر میں یہ شعائر غیر مشروع ہیں ۔ اگر شیعہ حضرات کو اس دور میں بھی وہ وسائل اور امکانیات میسر آتے ہوتے جو ان کو آج اس دور میں میسر ہیں کہ وہ ان شعائر کا اظہار اور ان کو قائم کر سکتے ہیں تو ائمہ کے ادوار کے شیعہ بھی ان شعائر پر ضرور عمل کرتے جیسا کہ آج ہم کر رہے ہیں ، جیسے غم کے اظہار کے لیے حسینیات کے بلکہ ہر گھر کے دروازے پر کالے جھنڈے نصب کرنا وغیرہ۔‘‘[1] ایسا ہی اعتراف علامہ آیت اللہ عظمی علی الحسینی الفانی الاصفہانی[2] بھی کرتا ہے۔ چنانچہ وہ ایک اعتراض ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’بے شک یہ شعائر و رسومات ائمہ معصومین کے ادوار میں نہ تھے حالانکہ حسین کے غم کے زیادہ حق دار وہی تھے کہ وہی تو اہل مصیبت تھے۔ کسی حدیث میں یہ مذکور نہیں کہ ائمہ معصومین میں سے کسی نے ان رسومات کا حکم دیا ہو۔ ان امور کا آغاز اہل تشیع نے کیا، انہوں نے اس بدعت کی بنیاد رکھ کر اس کو مذہبی شعائر کا نام دیا۔ جبکہ ایک حدیث میں ہے کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں جائے گی۔‘‘ فانی اصفہانی اس کا یہ جواب دیتا ہے: ’’جواب بالکل واضح ہے کہ ہر جدید چیز بدعت نہیں ہوتی۔ مبغوض بدعت وہ ہے جس کو دین میں نیا حکم بنا کر پیش کیا جائے کہ یہ الٰہی تشریع ہے، ایسی ہی بدعت کی بابت روایات میں مذمت آتی ہے اور یہ بات بدیہی ہے کہ حسینی شعائر کی حیثیت یہ نہیں اور ایسا کیوں نہ ہو کہ رونے کا تو شریعت میں حکم آیا ہے۔[3] یہ ایک تولیدی فعل ہے جس کا ایک سبب ضرور ہوتا ہے۔ یا تو وہ سبب قولی ہوتا ہے جیسے مصائب کو ذکر کرنا اور مرثیہ پڑھنا۔ یا پھر اس کا سبب فعلی ہوتا ہے جیسا کہ شبیہ
Flag Counter