اور تعزیہ۔ اس لیے ایک فقیہ کے ذمہ لازم ہے کہ وہ ان شعائر کو جائز قرار دے کیونکہ ان شعائر پر وہ رونا مرتب ہوتا ہے جو راجح ہے جیسا کہ تعزیہ بنانا اور اٹھانا کہ یہ ایک قصدی عنوان ہے۔ اس کا نکالنا ضروری ہے۔ یہ عزاداری کا عنوان ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف قوموں میں تعزیت اور عزاداری کے عناوین اور صورتیں مختلف ہیں ۔ عزاداری کا جو طریقہ اہل تشیع کے ہاں رائج ہے وہ شرعی ممنوعہ بدعت کے زمرے میں نہیں آتا۔ لہٰذا جس کو بھی تعزیت اور عزاداری کے ان رائج طریقوں کی مشروعیت پر شک ہے اسے پہلے بدعت کا مفہوم سمجھنا چاہیے، پھر جس پر چاہے اس بدعت کی تطبیق کرے۔‘‘[1]
حسن مغنیہ لکھتا ہے:
’’چوتھی صدی ہجری میں جب بویہی دور آیا تو انہوں نے بغداد، عراق، خراسان، ماوراء النہر اور ساری دنیا میں ان رسومات کی بنیاد رکھی۔ اب سیاہ پرچم ہر طرف لہرائے جانے لگے اور لوگوں نے ماتمی جلوس نکالنے شروع کیے جن میں اہل تشیع سینہ کوبی کرتے تھے۔ اسی طرح حمدانی کے دور میں حلب اور موصل کا حال بھی تھا۔ پھر فاطمیوں کا دور آیا۔ ان کے دور کی رسومات بغداد کی رسومات کے تابع تھیں ۔ فاطمیوں نے ان اصول پر اکتفا کیا جو آج تمام اسلامی اور عربی بلاد و امصار میں پھیلی ہوئی ہیں بالخصوص عراق، ایران، ہندوستان (پاکستان)، شام اور حجاز۔ چنانچہ ماتمی جلوسوں کا انعقاد کیا جاتا، نوحہ خوانی اور سینہ کوبی کی جاتی اور آنسو بہائے جاتے۔ آج ان حسینی شعائر کو قائم کرنا دین کی خدمت اور اعلانِ حقیقت کا مظہر بن چکا ہے۔‘‘[2]
شیعہ امام اور شہید آیت اللہ حسن شیرازی ان شعائر و رسومات کی تاریخ اور ادوار کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ ظلم ہے کہ اہل تشیع کو ان ادوار سے قبل ان رسومات کے ادا کرنے کی اجازت نہ تھی اور نہ وہ اس پر قادر ہی تھے۔ کیونکہ شیعہ بنو عباس اور بنو امیہ کے ظلم و ستم کے ہاتھوں کمزور تھے۔ ان پر سال کے موسموں کی طرح گرم سرد موسم آتے رہتے تھے۔ چنانچہ حالات کے اعتبار سے ان کی تعبیرات مختلف رہی ہیں ۔[3]
آگے موصوف شیرازی اہل تشیع پر آنے والے پانچ ادوار کا ذکر کرتے ہیں :
|