Maktaba Wahhabi

306 - 441
اور عمر رضی اللہ عنہما بھی نہیں ؟ تو فرمانے لگے کہ ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ان سے بہتر تھے اور میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑا سردار نہیں دیکھا۔‘‘[1] یہ موقعہ ان مسائل کی تفصیل کا نہیں ۔ البتہ اس ذات کا حق پہچاننا بھی ضروری ہے جس نے اپنے علم، حلم اور دینی غیرت و حمیت کی بدولت پراگندہ امت کی شیرازہ بندی کی اور آراء و اجتہادات کی محاذ آرائی ختم کر کے اعدائے صحابہ کی شورشوں اور یورشوں کے آگے بند باندھ کر رکھ دیا۔ پھر یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ان جملہ امور میں امت کی مصلحت و عافیت کی بابت مجتہدتھے۔ اس لیے جو دریدہ دہن بھی ان پر موت قریب آ جانے اور قرب و حساب کے سامنے آنے پر اولاد کی محبت کے ہاتھوں مغلوب و مجبور ہو جانے کی تہمت لگاتا ہے تو بے شک وہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی ان گزشتہ حسنات پر گھناؤ نی تہمت لگاتا ہے جو انہوں نے جہاد فی سبیل اللہ کرنے، فتنوں کو پیوند خاک کرنے، امت کو متحد کرنے، اس میں امن کو عام کرنے اور اس کی اصلاح احوال کرنے کی راہ میں کی تھیں ۔ میں ہرگز بھی یہ گمان نہیں کر سکتا کہ جس شخص کا یہ حال ہو وہ کبھی محض اپنے جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر امت کی قسمت سے کھلواڑ کرنے کے لیے ایک غلط فیصلہ کرے خواہ آلِ بیت کی محبت کی آڑ میں ہی سہی۔ دوسری وجہ: ان فتنہ گروں ، دغا بازوں اور حضرات صحابہ کرام اور آل بیت رضی اللہ عنہم سے بے پناہ کینہ اور کھوٹ رکھنے والوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے حالات و واقعات کی خلافِ واقعہ منظر کشی کی اور بہتان و جعلسازی سے کام لیتے ہوئے تحریف کرنے اور بھڑکانے اور اکسانے میں بے پناہ مبالغہ کیا ۔ ابو سعید مقبری بیان کرتے ہیں : ’’اللہ کی قسم! میں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو دیکھا، وہ دو آدمیوں کے درمیان چل رہے تھے، کبھی وہ اس آدمی کی بات پر اعتماد کرتے تو کبھی اس دوسرے کی بات پر اور کبھی پھر اس پہلے کی بات پر، یہاں تک کہ مسجد میں یہ شعر پڑھتے ہوئے داخل ہو گئے: لا ذعرت السوام فی غبش الصب ح مغیرا و لا دعیت یزیدا یوم اعطی مخافۃ الموت فیما و المنایا یرصدننی ان احیدا
Flag Counter