Maktaba Wahhabi

307 - 441
’’نہ تو مجھے منہ اندھیرے کسی غارت گر کا ڈر ہے اور نہ مجھے یزید کی بیعت کرنے کو کہا گیا ہے۔ مجھے ڈر ہے تو اس دن کا ہے جب مجھے ظلم سے مار ڈالا جائے گا اور موت میری تاک میں ہے کہ میں کب تنہا ہوتا ہوں ۔‘‘ ابو سعید کہتے ہیں : ’’میں سمجھ گیا کہ اب سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ زیادہ دیر تک نہ ٹھہریں گے اور خروج کر دیں گے۔ پھر تھوڑا عرصہ بھی نہ گزرا کہ انہوں نے خروج کر دیا اور وہ مدینہ سے مکہ چلے گئے۔‘‘[1] فتنہ گروں کی آپ سے ملاقاتیں بڑھتی گئیں ۔ وہ آپ کے سامنے ظلم و ستم کے جھوٹے قصے بیان کر کر کے آپ کی حمیت دینی کو انگیخت کرتے رہے حتیٰ کہ بالآخر انہوں نے سنت کی مدد کے نام پر -جس سے یہ ہمیشہ بیزار رہتے ہیں - آپ کی حمیت کو مہمیز کر ہی دیا اور ان مکار و عیار کوفیوں کے مزعومہ ظلم و باطل کے قلع قمع کے لیے آپ کو تیار کر ہی لیا تو جنابِ حسین رضی اللہ عنہ سے کچھ ایسے امور سرزد ہونے لگے جو آپ کی نیتِ خروج کی غمازی کرتے تھے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کی طرف سے بعض لوگوں کو آپ کی نشست و برخاست اور حرکات و سکنات پر نظر رکھنے کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات سے کچھ عرصہ قبل ہی انہیں ان امور کی خبر دمشق لکھ بھیجی۔ انہی خطوط میں مروان بن حکم کا لکھا یہ خط بھی ہے جس میں انہوں نے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ ’’مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں حسین( رضی اللہ عنہما ) فتنہ کا باعث نہ بن جائیں ۔ میں حسین( رضی اللہ عنہما ) کی بابت آپ لوگوں کا دن طویل دیکھ رہا ہوں ۔‘‘ جس پر سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو وعظ و نصیحت بھرا یہ خط لکھا : ’’جس نے اللہ سے اپنے داہنے ہاتھ سے کوئی عہد کیا ہو، وہ پور کیے جانے کے زیادہ لائق ہے۔ مجھے خبر ملی ہے کہ اہل کوفہ آپ کو شقاق و افتراق کی دعوت دے رہے ہیں ۔ ان عراقیوں کو آپ آزما چکے ہیں ، یہ وہی تو ہیں جنہوں نے آپ کے والد اور بھائی کے ساتھ بُرا کیا تھا۔ سو اللہ سے ڈریے اور عہد کو یاد رکھیے، جب آپ مجھے تھکائیں گے تو میں آپ کو تھکاؤ ں گا۔‘‘ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں یہ لکھ بھیجا: ’’آپ کا خط ملا۔ آپ کو میرے بارے میں غلط باتیں پہنچی ہیں ۔ نیکیوں کی راہ اللہ ہی دکھاتا
Flag Counter