آلِ بیت کے اکابر اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے اس ارادے کو درست قرار نہ دیا اور نہ آپ کے کوفہ جانے کی تائید کی۔ بالخصوص جبکہ اس وقت جماعت قائم تھی، امت میں وحدت تھی، جملہ اقالیم اور بلاد و امصار پر امراء تعینات تھے اور حدود و ثغور مامون و محفوظ تھیں ۔ ان جملہ حالات اور کوفیوں کے سابقہ کردار کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوکوفہ کے غدر و خیانت پر ذرا بھی بھروسہ نہ تھا، انہیں اس بات کا بے حد اندیشہ تھا کہ کہیں سیّد آل بیت سیّدنا و سیّد العالمین حضرت محمد مصطفی و احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ چشم و چراغ ان کوفیوں کے دامِ ہم رنگ زمین میں نہ جا پھنسیں جو امت مسلمہ کی وحدت کو دیکھ کر کبھی چین کی نیند نہ سوتے تھے اور ہر وقت افتراق و انتشار کے تانے بانے بننے میں مصروفِ عمل رہتے تھے۔ اس لیے معمولی سے ظلم کو بہانہ بنانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا، بات کا بتنگڑ اور حبہ کو قبہ بنانا ان کا شعار تھا اور لوگوں کو فتنوں کے بھنور میں پھنسانا ان کا نصب العین تھا۔
کوفیوں کے اس نہایت شرم ناک کردار اور سیاہ تاریخ کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا ذرا بھی مشکل نہیں کہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے قاتل کون تھے؟ جی ہاں ! خانوادۂ رسول کے اس چراغ کو اپنی زہریلی پھونکیں مار کر بجھانے والے یہی روافض تھے جن کے دل عداوت صحابہ رضی اللہ عنہم سے آج بھی لتھڑے ہوئے ہیں ۔ ان لوگوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو فتنوں کے جال میں جکڑنے کے لیے ہر ممکن زور لگا دیا تھا۔ چنانچہ جب انہوں نے دیکھا کہ اب ان کی سازش تیار ہے تو کربلا کا میدان سجا دیا اور آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خون کو خاک میں ملانے لگے۔
آئیے پڑھتے ہیں کہ سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو کن کن اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم نے کوفہ جانے سے روکا تھا۔
سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما :
ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے فرمایا:
’’میں آپ کو ایک حدیث سناتا ہوں ۔ وہ یہ کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے خدمت نبوی میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا اختیار دیا کہ دنیا و آخرت میں سے کسی ایک کو چن لیجیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کو چن لیا اور دنیا کو نہ لیا اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر ہیں ۔ اللہ کی قسم! آپ میں سے کسی کو بھی دنیا ملنے والی نہیں اور اللہ نے آپ لوگوں سے دنیا کو صرف اس لیے پھیرا ہے تاکہ آپ کو دنیا سے بہتر چیز دے۔‘‘
سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے یہ نصیحت سن کر بھی جانے کا ارادہ ترک نہ فرمایا۔ اس پر سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں
|