پہلا دَور:
یہ ائمہ کا دور ہے۔ شیرازی لکھتا ہے:
’’اس دور میں یہ لوگ کسی ایک کے گھر میں جمع ہو کر اشعار پڑھتے اور اہل بیت کے پرسا میں احادیث پڑھ کر سناتے تھے۔ جبکہ دوسرے یعنی سامعین زار و قطار روتے تھے لیکن یہ سب کچھ کمال راز داری اور تقیہ کے ساتھ ہوتا تھا کہ کہیں ظالم حکومتیں ان پر غضب ناک ہو کر ان کے سر قلم نہ کر دیں ۔‘‘[1]
لیکن موصوف شیرازی کا یہ قول ردّ ہے کیونکہ موصوف نے اپنی اس عبارت کا کوئی حوالہ ذکر نہیں کیا۔
دوسرا دَور:
یہ بنو عباس کا دور ہے۔ شیرازی اس دور کا خوب شکویٰ کرتا ہے اور کہتا ہے:
’’چنانچہ امام شہید پر نوحہ کی مجالس میں وسعت آئی اور منبروں پر مرثیہ خوانی علی الاعلان ہونے لگی۔ البتہ یہ سب کچھ ایک محدود ماحول میں ہوتا تھا جو تحریک تشیّع سے جدا تھا۔‘‘[2]
میں کہتا ہوں کہ موصوف کا یہ قول بھی ردّ ہے کیونکہ وہ خود اس بات کا اقرار کر رہا ہے کہ یہ نوحہ خوانی وغیرہ تحریک تشیّع سے جدا تھی، تب پھر اس بات سے استشہاد اور استدلال چہ معنی دارد؟!!
تیسرا دَور:
موصوف شیرازی لکھتا ہے:
’’یہ بویہیین، دیالمہ اور فاطمیوں کا دور ہے۔ بالخصوص معز الدولہ دیلمی کا دور جنہوں نے دہشت گردی کا شیوہ اختیار کیا، کھل کر سبائی طاقت کا مظاہرہ کیا اور اہل تشیع کو ماتمی اور نوحہ و مرثیہ خوانی کی مجالس گھروں سے نکال کر گلی کوچوں اور سڑکوں پر لے آنے کی کھلی اجازت دی۔ اب دس محرم کو حکومتی سطح پر سوگ منایا جانے لگا۔ چنانچہ اس وقت دکانیں بند کر دی جاتیں اور ایک منظم طریق سے مختلف گلیوں ، راستوں اور کھلے میدانوں میں ماتمی جلوس نکالے جاتے تھے۔‘‘[3]
چوتھا دَور:
یہ صفویوں اور بالخصوص علامہ مجلسی کا دور ہے جس نے اہل تشیع کو اپنے تمام شعائر اور رسوم آزادی کے ساتھ ادا کرنے کی زبردست ترغیب دی۔ اس دَور میں واقعۂ کربلا کے المیہ کو ڈرامائی انداز میں نقل کر کے
|