Maktaba Wahhabi

270 - 441
جو صحابہ رضی اللہ عنہم اس الم ناک واقعہ کے وقت موجود تھے وہ تو سرے سے شام میں تھے ہی نہیں ، وہ تو کوفہ میں تھے۔[1] پھر اس روایت کے متن کے فاسد ہونے پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ اس روایت کا متن روایات صحیحہ کے متن کے خلاف ہے جو اس بات کو بالتاکید ثابت کرتی ہیں کہ یزید نے آل حسین کے ساتھ ازحد حسن سلوک کیا تھا اور وہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کی آل کے قتل پر بے حد افسردہ اور غم زدہ ہو گیا تھا۔[2] جبکہ صحیح روایت میں صرف اس قدر ثابت ہے کہ سر مبارک کو ابن مرجانہ فارسیہ کے پاس لے جایا گیا، یہ ابن مرجانہ تھا جس نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے چہرۂ مبارک پر کمال سنگ دلی کا مظاہر کرتے ہوئے ہاتھ میں پکڑی چھڑی ماری تھی، جس پر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے برملا نکیر کی تھی[3] اور یزید کی طرف سر مبارک کے لے جائے جانے کی روایت باطل ہے اس کی اسناد منقطع ہے[4] اور یہ صحیح روایت کے مخالف بھی ہے۔ جن روایات میں سرمبارک کے شام لے جائے جانے کا ذکر ہے ان میں سے کوئی روایت بھی البدایہ و النہایہ میں مذکور ہونے کے باوجود درجہ صحت کو نہیں پہنچتی،[5] جیسا کہ امام ذہبی نے اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔[6] اب ذیل میں کسی قدر اختصار کے ساتھ ان شہروں کا ذکر کیا جاتا ہے جن میں سر حسین رضی اللہ عنہ کے دفن ہونے کی بابت روایات منقول ہیں : کربلا: اگرچہ اس بارے میں ایک بھی معتبر روایت نہیں ملتی جس میں اس بات کا ذکر ہو کہ سر حسین رضی اللہ عنہ کربلا میں دفن ہے۔ لیکن اس کے باوجود ایسی روایات کی کثرت ہے اور لطف یہ ہے کہ یہ جملہ روایات انہی شیعوں سے مروی ہیں ۔ کچھ بیان کرتے ہیں کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے چالیس دن بعد ان کے سر مبارک کو دوبارہ کربلا لایا گیا اور اسے جسد حسین رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔[7] اس روایت کے اختراع کا مقصد صرف یہی تھا کہ ایک مشہد قائم کر کے اسے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر بغض و نفرت کے اظہار کا مرکز بنا لیا جائے۔
Flag Counter