کسی طرح اس شہر کی طرف موڑ دیا جائے۔ اس روایت میں سبط ابن جوزی منفرد ہیں جن پر رافضی ہونے کی تہمت ہے۔ سبطِ ابن جوزی نے یہ روایت کسی سند و حجت کے بغیر ذکر کی ہے جو اس بات کو واضح کرتی ہے کہ سر حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر بنایا جانے والا یہ مقبرہ جعلی ہے جس کا مقصد امت مسلمہ کے ساتھ عداوت کا اظہار، اسے عداوت صحابہ کی دلدل میں دھکیلنا اور کینہ و فتنہ کی تہذیب کی ترویج کے ذریعے سے اس پر کتاب و سنت کو ملتبس کرنا ہے۔[1] ان روافض کا وتیرہ خلاف واقعہ روایات و اخبار کی ترویج ہے۔[2] اسی لیے یہ سبط ابن جوزی جیسے حضرات کے گرویدہ اور اس کی روایات پر فریفتہ ہیں ۔ چنانچہ ذہبی سبط ابن جوزی کے بارے میں کہتے ہیں : ’’میں نے اس کی ایک کتاب دیکھی ہے جو اس کے رافضی ہونے پر دلالت کرتی ہے۔‘‘[3]
عسقلان:
ان روایاتِ مکذوبہ میں ایک نام عسقلان کا بھی ملتا ہے، محققین کی ایک جماعت نے اس خبر کا انکار کیاہے کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک فلسطین کے شہر عسقلان میں دفن ہے۔ ان محقق علماء میں ایک نام علامہ قرطبی کا بھی ہے جنہوں نے سر حسین رضی اللہ عنہ کی بابت جملہ افسانوں کا قرار واقعی تعاقب کر کے ان کی جعل سازی کی قلعی کھولی ہے۔ علامہ قرطبی کہتے ہیں :
’’سر حسین رضی اللہ عنہ کے عسقلان میں مدفون ہونے کی بابت منقول روایت سراسر باطل ہے۔‘‘[4]
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اس روایت پر انکار کیا ہے۔[5]
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی متابعت میں ’’البدایۃ و النہایۃ‘‘ میں سر حسین رضی اللہ عنہ کے عسقلان میں مدفون ہونے کی روایت کو رد کر دیا ہے۔[6]
قاہرہ:
حاقدین اسلام نے اس بات کو بھی خوب تشہیر دی ہے کہ قاہرہ سر حسین رضی اللہ عنہ کا مدفن ہے۔ چنانچہ عبیدیوں نے مصر پر اپنے ایام حکومت کے دوران میں لوگوں کی عقلوں سے خوب کھلواڑ کیا اور کسی شعبدہ باز اور مداری کی طرح لوگوں کو بے وقوف بنایا اور انہیں یہ باور کروایا کہ سر حسین رضی اللہ عنہ قاہرہ میں مدفون ہے۔ اس سے ان کی
|