Maktaba Wahhabi

433 - 441
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ خلیفہ چہارم علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے دَور میں آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے اور مسلمانوں کے خلیفہ راشد اور ایک عظیم انسان تھے۔ آپ کے دادا عبدالمطلب بن ہاشم پر آپ کا نسب خاندان نبوت سے مل جاتا ہے آپ کی کنیت ابو الحسن ہے۔ یہ نسبت آپ کے بڑے صاحبزادے حسن رضی اللہ عنہ کی طرف ہے جو فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بطن سے پیدا ہوئے۔ آپ کی کنیت ابو تراب بھی ہے۔ اس کنیت سے آپ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نوازا تھا۔ جب آپ کو ابو تراب کہہ کر پکارا جاتا تو آپ بہت خوش ہوتے تھے۔ قریش کی بہت ساری خصوصیات میں سے یہ بھی تھی کہ وہ اپنی اولاد سے محبت رکھتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اندر بہت ساری خصوصیات جمع ہو گئی تھیں ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ اسلام سے پہلے بھی آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہتے تھے اور آپ کی کفالت میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت کچھ سیکھا اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر علی رضی اللہ عنہ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بڑی بڑی مہمات میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مشورہ کے بغیر کام نہیں کرتے تھے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ بھی نہایت دوستانہ اور مخلصانہ مشورہ دیتے تھے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جب بیت المقدس گئے تو کاروبار خلافت ان ہی کے ہاتھ دے کر گئے۔ اتحاد و یگانگت کا مرتبہ یہ تھا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو جو سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے بطن سے تھیں ، ان کے عقد میں دے دیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک فرزند کا نام ابوبکر، دوسرے کا عمر اور تیسرے کا عثمان رکھا۔ عام طور پر لوگ اپنے فرزندوں کے نام انہی لوگوں کے نام پر رکھتے ہیں جن سے دلی تعلق ہوتا ہے اور جن کو وہ مثالی انسان سمجھتے ہیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پہلے مشیر تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آپ سے ہر چھوٹے بڑے معاملے میں مشورہ لیتے تھے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی پوری زندگی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے مشیر، خیر خواہ اور ہم درد رہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے خاص محبت کرتے تھے۔ ان دونوں میں باہمی اعتماد اور الفت و محبت قائم تھی۔ لیکن افسوس ہے کہ ان تمام حقائق کے باوجود لوگوں نے تاریخ کو بدلنے اور مسخ کرنے کی کوشش کی اور اپنے بگڑے ہوئے مزاج اور افکار کی بنیاد پر ایسی روایات کو عام کیا جو یہ تاثر دیتی ہیں کہ خلفائے راشدین میں سے ہر ایک دوسرے کی تاک میں رہتا تھا کہ جلد سے جلد مقابل کا کام تمام ہو جائے نیز یہ کہ ان
Flag Counter