زیادہ عزیز ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جماعت تیرے پاس خیر ہی لائے گی۔‘‘[1]
البتہ یہ بات ضرور یاد رہے کہ اس بات کا قائل کوئی بھی نہیں کہ غلبہ کے حصول کے لیے شوریٰ کا یہی منہج ہی سب سے درست ہے۔ حمید ہی سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ یزید کے خلیفہ بننے کے بعد ہم ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو وہ فرمانے لگے:
’’کیا تم لوگ یہ بات کہتے ہو کہ یزید اس امت کا نہ تو سب سے بہتر آدمی ہے، نہ سب سے زیادہ فقیہ ہے اور نہ سب سے زیادہ معزز ہی ہے؟ ہم نے عرض کیا: جی ہاں ۔ فرمانے لگے: میں بھی یہی کہتا ہوں ، لیکن اللہ کی قسم! مجھے امت محمدیہ کا اتفاق و اتحاد اس کے افتراق واختلاف سے زیادہ عزیز ہے، تمہارا اس دروازے کے بارے میں کیا خیال ہے جس میں ساری امت کے گزر جانے کی گنجائش ہو تو کیا ایک شخص اس میں داخل ہونا چاہے تو کیا داخل نہ ہو سکے گا؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں ۔ پھر فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ اگر امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فرد یہ کہے کہ وہ اپنے بھائی کا خون نہ بہائے گا اور نہ اس کا مال ہی چھینے گا۔ کیا یہ اس کے بس میں ہے یا نہیں ؟ ہم نے کہا: ضرور۔ تو فرمایا: یہی وہ بات ہے جو میں تمہیں کہنا چاہتا ہوں ۔ پھر فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’حیا سے تمہیں خیر ہی ملے گی۔‘‘[2]
اس رائے کی درستی اس وقت ہمارے سامنے واضح ہوتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے بے پناہ فضائل و مناقب اور شمائل و محامد کے مالک ہونے، امت محمدیہ میں عظیم تر رتبہ و مرتبہ اور لوگوں کی بے انتہا عقیدت و محبت رکھنے اور علم و فصاحت اور اعوان و انصار کی کثرت ہونے کے باوجود جب سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے اختیار کی ہوئی ایک بات کو بدلنے کی کوشش کی تو ایسا نہ کر سکے اور نتیجہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت، شقاق اور فتنوں کے اضافے اور دار الاسلام میں ایک دوسرے کے خلاف اجتہادات کی کثرت کی صورت میں نکلا اور یہی وہ خطرات تھے جن سے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ امت کو بچانا چاہتے تھے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ ان کی دقت نظری، باریک بینی، بے پناہ دانائی اور اپنے دور کے حالات کی قرار واقعی تشخیص و تعیین میں غور و تدبر اور فکر و فراست کی راستی و درستی کو بتلاتا ہے۔ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی اس سیاست و تدبر کی شہادت سیّدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ان الفاظ کے ساتھ دیتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں :
’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑا سردار نہیں دیکھا۔ کسی نے کہا: کیا ابوبکر
|