کسریٰ کی فارسی مجوسی حکومت کو اس کی جہالت اور ظلم و طغیان سمیت ختم ضرور کیا تھا کیونکہ کسریٰ کی مجوسی حکومت نے انسانیت پر ظلم و ستم اور جہالت کا بازار گرم کر رکھا تھا۔ افسوس کہ آج یہ رافضیت مظلومیت کے نام پر ایک بار پھر اسی مجوسیت، جہالت اور ظلم کو زندہ کرنا چاہتی ہے۔
یہی حقیقت بھی ہے، امت مسلمہ کے اعدائے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں قتل و کراہیت کے اکثر واقعات اسی ایک نکتہ کے گرد گھومتے ہیں کہ یہ رافضی اسی مجوسی سلطنت کے معنوی وارث ہیں اور اپنے سوا دوسری تمام اُمتوں سے افضل اور بہتر سمجھتے ہیں ۔ اسی لیے انہیں عرب دنیا سے بے حد نفرت ہے اور یہ ان کے وجود کو زندہ نہیں دیکھنا چاہتے۔ ان کے نزدیک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آل بیت غدر و خیانت کے ہتھیار ہیں ۔ رافضی ان مقدس ہستیوں کا نام استعمال کر کے امت مسلمہ کو راہِ حق سے برگشتہ کرتے ہیں اور آل بیت کی نصرت کے نام پر اسلامی عقائد پر نقب لگاتے ہیں ۔
امت مسلمہ پر لازم ہے کہ وہ ان آتش پرست مجوسیوں اور ان کے سرکش قائدین سے امت کو بچانے کی پھرپور کوشش کریں اور ہر اس قول و فعل کی حقیقت کو آشکارا کریں جس کے ذریعے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عزت و حرمت اور عقیدہ و ایمان پر طعن کیا جاتا ہے تاکہ امت مسلمہ کے عقیدہ ان کی وحدت اور ان کی شخصیت کو موردِ الزام ٹھہرایا جا سکے جبکہ ان سب افعال کا ارتکاب سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور آل بیت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ غم خواری، تعزیت اور محبت کے اظہار کی آڑ میں کیا جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور آل بیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مصیبت کا غم تو امت مسلمہ کو پہنچا ہے اور انہیں دہرا غم پہنچا ہے۔ ایک غم یہ کہ ان مقدس ہستیوں کے ساتھ نہایت گھناؤ نی صورت میں غدر و خیانت کی گئی جس کے نتیجہ میں امت مسلمہ ان مقدس ہستیوں کے بابرکت وجودوں سے محروم ہو گئی اور دوسرا غم یہ اٹھانا پڑا کہ خود آل بیت اور سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ناموں کو کتاب و سنت کے عقیدہ اور ان کی لغت پر بھرپور حملہ کرنے کے لیے بطور ہتھیار کے استعمال کیا جانے لگا۔ لہٰذا یہ کہنا عین حقیقت ہے کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی مصیبت کا صدمہ تو امت مسلمہ نے اٹھایا ہے۔ جبکہ اعدائے صحابہ ان کے مصائب کے نام پر تعزیت اورمظلومیت کا اظہار کرنے کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور مظلومیت کے نام کے نعرے بلند کرتے ہیں جن کا مقصد امت کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔ اس گھناؤ نے مقصد کے حصول کے لیے ان رافضی اعدائے صحابہ نے ایک مستقل حکومت کو قائم کیا ہے جو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات تابعین کے عقیدہ و عمل کے نشانات اور آثار کو مٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور ’’خاکم بدہن‘‘ ان بدبختوں کی کوششوں کی کامیابیوں کے آثار بھی ظاہر ہونے لگے ہیں ۔ جن میں سرفہرست کتاب و سنت اور ان کی ثقافت سے جنگ
|