بھی حرام نہیں ۔[1]
پھر ہادی فضل اللہ عبدالحسین موسوی کے مدرسہ محافظہ کے نظریات کے درپے ہوتے ہوئے لکھتا ہے:
’’ہمارے مفکر عبدالحسین کہتے ہیں حسینی ماتم کے جملہ مظاہر حرام نہیں کیونکہ شرعی قاعدہ ہے کہ اشیا میں اصل اباحت ہے ناکہ حرمت۔ چنانچہ وہ مدرسہ اصلاحیہ کی طرح حسینی ماتم کے مظاہر کو حرام قرار نہیں دیتے۔‘‘[2]
حسن مغنیہ لکھتا ہے:
’’دس محرم آتا ہے تو عجب حال ہو جاتا ہے عاملیہ کی مساجد، حسینی مجالس، گلی کوچے اور بازار سیاہ پرچموں سے ڈھک جاتے ہیں ، ہر طرف آہوں سسکیوں اور گریہ و زاری کا بازار گرم ہوتا ہے، در و دیوار پر غم کی پرچھائیاں نظر آتی ہیں ، واقعہ کربلا کو سنا سنا کر ماحول اس قدر غمگین و حزین بنا دیا جاتا ہے کہ چہرے افسردہ، دل رنجیدہ، سینے آزردہ، جی گھٹے ہوئے اور فضا ازحد مغموم ہوتی ہے۔ ہر طرف ہائے ہائے کی پکار ہوتی ہے۔ جس سے دل زخمی اور سینے چھلنی ہوتے ہیں ۔‘‘[3]
ایک اور جگہ مغنیہ لکھتا ہے:
’’دس محرم کی صبح آٹھ بجے سے ہی واقعہ کربلا کی تمثیلی شکل دکھلانے کو نبطی نکل آتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کی بھیڑ لگ جاتی ہے۔ واقعہ کربلا کی ڈرامائی عکاسی کرنے میں نبطیوں کے بڑے بوڑھے اور بچے عورتیں سب شریک ہوتے ہیں ۔ یہ ڈرامہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہتا ہے۔ لمحہ بہ لمحہ بھیڑ بڑھتی جاتی ہے۔ واقعہ طف کے ناظرین کی تعداد پچاس ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔ جب یہ لوگ لوٹتے ہیں تو ان کے سینے کھلے اور ننگے ہوتے ہیں ۔ جن کو بے تحاشا پیٹ رہے ہوتے ہیں ، جبکہ ہاتھوں میں خنجر، تلواریں اور زنجیریں ہوتی ہیں چنانچہ خنجروں اور تلواروں کو تو اپنے سروں پر جب کہ دھاری دار زنجیروں کو اپنی پیٹھوں پر مارتے ہیں ۔ یہ سب کچھ اس قدر جذباتی انداز میں کیا جاتا ہے کہ دل مارے غم کے پگھل پگھل جاتے ہیں ۔‘‘[4]
اہل تشیع کا خطیب بے بدل دکتور احمد وائلی زنجیر زنی اور سینہ کوبی کی بابت سوال کے جواب میں لکھتا ہے:
’’اس باب میں گزشتہ علماء اپنی رائے دے چکے ہیں کہ اگر تو یہ ضربیں جان لیوا ہیں تو ایسا کرنا
|