حرام ہے اور اگر یہ ضربیں جان لیوا نہیں تو حرام نہیں بلکہ یہ حب حسین رضی اللہ عنہ کی ایک وجدانی تعبیر ہے۔‘‘[1]
ایسا ہی ملتا جلتا شیعی مصنف فتویٰ عبدالہادی عبدالحمید صالح کا بھی ہے کہ …
’’اگر تو یہ زنجیر زنی وغیرہ ہلاکت آفرین ہو تو حرام ہے وگرنہ جائز ہے۔ موصوف اس زنجیر زنی کو دل کا ایک فطری جذبہ قرار دیتے ہیں ۔‘‘[2]
شیخ الشیعہ مہدی محمد سویج لکھتا ہے:
’’واقعہ کربلا پر نوحہ خوانی، سینہ کوبی اور زنجیر زنی کرنے والے دراصل ایک طرف اپنے دل کے جذبات کا اظہار کرتے ہیں تو دوسری طرف آل بیت سے اپنی سچی محبت جتلاتے ہیں ۔ ان کا منہ پیٹنا اور سینہ کوبی کرنا ظالموں پر غیض و غضب کے اظہار کے لیے ہوتا ہے کیونکہ کوئی زمانہ یزید اور ابن زیاد سے خالی نہیں ہوتا اور ہر زمانہ کے مظلوم اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی فریاد اپنا منہ پیٹ کر کرتے ہیں ۔‘‘[3]
اہل تشیع کا استاذِ محقق ’’طالب خرسان‘‘ لکھتا ہے:
’’ایسے ماتمی مظاہرے تمام بلادِ اسلامیہ میں حسین اور ان کے ساتھ شہید ہونے والوں پر غم کے اظہار کے لیے قائم کیے جاتے ہیں ۔‘‘[4]
شیخ الشیعہ دکتور عبد علی محمد حبیل اپنے شیخ حسن دمستانی سے نقل کرتے ہیں کہ
’’حسین پر نوحہ کرنا فرضِ عین ہے۔‘‘[5]
علی خامنائی لکھتا ہے:
’’چند امور ایسے ہیں جو لوگوں کو اللہ کے قریب کرتے ہیں ، جن پر کاربند رہنے سے وہ اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رہ سکتے ہیں ، ان امور میں سے چند مراسم عزاداری ہیں ۔ ہمارے امام خمینی نے ہمیں اس بات کی وصیت کی ہے کہ ہم محرم کے روایتی عزاداری کے زمانہ میں حسینی مجالس میں شریک ہوا کریں ، امام حسین پر نوحہ اور گریہ و زاری کیا کریں ، جلوسوں میں سینہ کوبی کیا کریں ۔ یہ
|