کے روزہ کی ممانعت مذکور ہے۔ لیکن یہ جملہ روایات خود ایک دوسرے کو جھٹلاتی ہیں ۔
رضا سے روایت ہے کہ جب ان سے عاشوراء کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو کہنے لگے
’’کیا تم لوگ مجھ سے ابن مرجانہ کے روزہ کے بارے میں پوچھتے ہو؟ اس دن آلِ زیاد نے قتل حسین کے لیے روزہ رکھا تھا۔ اس دن نہ روزہ رکھا جاتا ہے اور نہ اس دن سے برکت حاصل کی جاتی ہے کیونکہ اس دن آلِ محمد اور اہلِ اسلام باہم فرقوں میں بٹے تھے اور سوموار کا دن منحوس ہے اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تھا۔ آل محمد کو بھی اسی دن حادثۂ فاجعہ پیش آیا تھا۔ پس جس نے دس محرم اور سوموار کے دنوں کو روزہ رکھا وہ مسخ دل کے ساتھ اللہ سے ملے گا اور اس کا حشر انہی لوگوں کے ساتھ ہو گا جنہوں نے ان دونوں دنوں کے روزہ رکھنے کی نیو ڈالی تھی۔‘‘[1]
زید نرسی روایت کرتا ہے کہ میں نے عبیداللہ بن زرارہ کو سنا وہ ابو عبداللہ علیہ السلام سے عاشوراء کے دن کے روزے کے بارے میں پوچھ رہا تھا۔ انہوں نے فرمایا:
’’جس نے اس دن کا روزہ رکھا اسے ابن مرجانہ اور آل زیاد کے حصے میں سے ملے گا۔ میں نے پوچھا: ان کا اس دن سے کیا حصہ ہے؟ تو فرمانے لگے: آگ اور اللہ آگ سے پناہ دے اور جس نے اس دن کا روزہ رکھا وہ جہنم کی آگ کے قریب ہو جائے گا۔‘‘[2]
ایک روایت میں ابو جعفر اور ابو عبداللہ دونوں سے عاشوراء اور عرفات کے دن کا مکہ میں روزہ رکھنے کی ممانعت مذکور ہے۔[3]
نجیہ کی روایت میں ابو جعفر نے اس دن کے روزہ کو رمضان کے روزوں کی وجہ سے متروک قرار دیا ہے اور متروک پر عمل بدعت ہوتا ہے۔
بعد میں یہی سوال جب نجیہ نے ابو عبداللہ سے کیا تو انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو ان کے والد ابو جعفر نے دیا تھا۔ پھر فرمایا اس دن کے روزہ کے بارے میں کتاب و سنت میں سے کچھ بھی نہیں آتا۔ یہ آل زیاد کی سنت ہے جو انہوں نے قتل حسین پر جاری کی تھی۔[4]
قارئین کرام ذرا اس کھلے تضاد کا نظارہ تو کیجیے کہ پہلی روایت اس بات کی تصریح کرتی ہے کہ عاشوراء کا روزہ آل زیاد کی ایجاد ہے۔ جب کہ جعفر صادق رحمہ اللہ سے مروی روایت بتلاتی ہے کہ قتل حسین کے بعد جب لوگ شام یزید کے پاس گئے تو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے طرح طرح کی روایات گھڑ کر اسے سنائی
|