گئیں اور خوب انعام وصول کیے۔ انہی روایات میں سے ایک روایت عاشوراء کے روزہ کے بارے میں بھی گھڑی کہ یہ برکت کا دن ہے تاکہ لوگ اس دن بجائے گریہ و نوحہ کرنے کے فرحت و سرور کا اظہار کریں ۔[1]
یہی حال دوسری اور تیسری روایت کا بھی ہے جبکہ چوتھی روایت تو ماقبل کی دونوں روایات کو خاک بنا کر اڑا دیتی ہے۔ یہ روایت اس بات کی تاکید کرتی ہے کہ عاشوراء کا روزہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے قبل موجود تھا۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عاشوراء کا روزہ قتل حسین سے کہیں پہلے سے موجود تھا۔ قارئین کرام! خود ہی بنظرِ انصاف دیکھ لیں کہ کیسے باطل خود ایک دوسرے کو پچھاڑتا ہے۔
تیجانی نے بھی اسے امویوں کا روزہ قرار دے کر اس کا انکار کیا ہے۔ سماوی کہتا ہے کہ اہل سنت و الجماعت عاشوراء کا روزہ یزید بن معاویہ اور بنی امیہ کی سنت کی پیروی میں رکھتے ہیں ، کیونکہ اس دن انہوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ پر غلبہ پا کر انہیں شہید کر دیا تھا اور اپنے گمان میں ان کے انقلاب کو ختم کر دیا جس سے انہیں اپنا وجود تک خطرے میں نظر آتا تھا۔ چنانچہ اہل سنت و الجماعت کے علماء سُوء آگے بڑھے اور انہوں نے بنو امیہ کی خوشنودی کے لیے اس دن کے روزے کے طرح طرح کے فضائل و مناقب ایجاد کر لیے، جیسے اسی دن کشتیٔ نوح کوہِ جودی پر آ ٹکی تھی، اسی دن نارِ ابراہیم ٹھنڈی ہو گئی تھی۔ سیّدنا یوسف علیہ السلام اسی دن جیل سے نکالے گئے وغیرہ وغیرہ اور یہ بھی بیان کیا کہ ہجرت کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو اس دن کا روزہ رکھتے دیکھا۔ دریافت کرنے پر یہود کہنے لگے کہ اس دن موسیٰ علیہ السلام نے فرعون پر فتح پائی تھی اور فرعون غرق ہو کر ہلاک ہو گیا۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہم یہود سے زیادہ موسیٰ کے قریب ہیں ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی نویں محرم کو بھی روزہ رکھنے کو فرمایا تاکہ یہود کی مخالفت کی جا سکے۔ بے شک یہ سب ایک رسوا کن جھوٹ ہے۔‘‘[2]
غرض تیجانی ہمیں ازحد برافروختہ نظر آتا ہے کہ اہل سنت اس دن کا روزہ بنو امیہ کی خوشنودی کے لیے رکھتے ہیں تاکہ شہادت حسین کے ذکر کو ختم کیا جا سکے۔ تیجانی کا یہ بیان بے حد طویل ہے اور کیسٹوں میں ملتا ہے جس میں وہ اس پر بے حد زور دیتا ہے کہ اہل سنت کی روایات اس دن کے روزہ کو حرام قرار دیتی ہیں ۔
ہم تیجانی کی اس برہمی پر اسے کچھ نہیں کہتے لیکن موصوف خود شیعہ روایات کا کیا کریں گے؟!!
یہ وہی جانتے ہیں ۔ لیجیے سنیے:
شیعہ کے شیخ الطائفہ ’’تہذیب الاحکام‘‘ اور ’’الاستبصار‘‘ میں ابو عبداللہ علیہ السلام کے حوالے سے
|