حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ، وہ فرماتے ہیں :
’’عاشوراء کا روزہ نویں محرم کو ملا کر رکھو کہ یہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔‘‘[1]
ابو الحسن علیہ السلام سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھا۔‘‘[2]
جعفر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ
’’عاشوراء کا روزہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔‘‘[3]
الصادق رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ
’’جو محرم کا روزہ رکھ سکے وہ ضرور رکھے کہ محرم کا روزہ، اسے رکھنے والے کی گناہوں سے حفاظت کرتا ہے۔‘‘[4]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ
’’رمضان کے بعد افضل ترین روزے اللہ کے اس ماہ کے روزے ہیں جس کو لوگ محرم کہہ کر پکارتے ہیں ۔‘‘[5]
موصوف تیجانی پڑھ لیں کہ عاشوراء کا روزہ کس کس نے رکھا اور کس نے اس روزہ کی بنیاد رکھی ہے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ناکہ بنو امیہ جیسا کہ تم لوگوں کا گمان ہے اور تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان پر افتراء باندھتے ہو!!!
کیا تم لوگوں کا اہل بیت پر یہی افتراء بس نہیں کہ تم لوگوں سے اہل بیت کی بابت یہ چرچا کرتے ہو کہ وہ اس دن کے روزہ کو حرام قرار دیتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مذکور ہو چکا کہ وہ عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو اس دن کا علم نہیں تھا اور اس نے کچھ کھا لیا تھا تب بھی وہ باقی کا دن روزہ رکھ کر پورا کرے۔[6] ذرا امیر المومنین رضی اللہ عنہ کی اس دن کے روزہ پر حرص تو دیکھیے کہ وہ کس طرح مسلمانوں کو اس دن کا روزہ رکھنے پر آمادہ کر رہے ہیں ۔
|