حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
’’جب محرم کا چاند چڑھ جائے تو اس کے دنوں کو شمار کرنا شروع کر دو۔ جب نویں کی صبح آئے تو اس کا روزہ رکھو۔ راوی کہتا ہے: میں نے عرض کیا: کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے؟ تو فرمایا: ’’ہاں ۔‘‘[1]
تیجانی کا اس روزہ سے انکار اور مسلمانوں پر یہ کہہ کر طعن کرنا کہ انہوں نے بنو امیہ کی خوشنودی کے لیے اس دن کی بابت نہ جانے کیسے کیسے فضائل گھڑے، تو بلاشبہ یہ تیجانی کے تجاہل ، قلت علم اور بے انصافی کی صریح دلیل ہے کہ خود ان کے شیخ الطائفہ اس بات کو روایت کرنے والوں میں سے ہیں کہ کشتیٔ نوح عاشوراء کے دن کوہِ جودی سے آ لگی تھی۔ جس پر سیّدنا نوح نے کشتی کے سواروں کو شکرانے کے طور پر اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔
ابو جعفر علیہ السلام کہتے ہیں : کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا دن ہے؟ یہ وہ دن ہے جس میں رب تعالیٰ نے آدم و حوا کی توبہ قبول کی۔ بنی اسرائیل کے لیے دریا کو پھاڑا اور اس میں فرعون اور اس کے لشکروں کو غرق کیا اور موسیٰ کو فرعون پر غلبہ دیا۔ اسی دن ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن قومِ یونس کی توبہ قبول ہوئی اور اسی دن عیسیٰ بن مریم پیدا ہوئے…۔‘‘[2]
شیعی عالم رضی الدین نے موسی بن جعفر سے روایت کیا ہے کہ متعدد روایات میں اس دن کے روزہ رکھنے کی ترغیب آئی ہے۔[3]
اس روایت کو الحر العاملی،[4] النوری الطبرسی،[5] حسین بروجردی[6] اور یوسف بحرانی[7] نے بھی ذکر کیا ہے۔
نوری طبرسی جعفر بن محمد سے روایت کرتا ہے:
’’کشتیٔ نوح دس محرم کو جودی سے آ لگی تھی جس پر سیّدنا نوح علیہ السلام نے جن و انس کو روزہ رکھنے کا حکم دیا اور اسی دن آدم و حواء کی توبہ قبول ہوئی۔‘‘[8]
کیا یہ سب روایات کسی اور کی ہیں ؟!!
|