Maktaba Wahhabi

358 - 441
تیجانی بتلائیں کہ اب وہ کیا کہتے ہیں ؟!! اب تیجانی کے ذمہ ہے کہ وہ ان شیعی روایات کو تلاش کر کے ان کی معتبر اسانید کا ہوش کے ساتھ جائزہ لیں جن میں عاشوراء کے دن کے روزہ کی ترغیب ہے اور جن روایات میں ممانعت ذکر ہے ان کو دیانت کے ساتھ دیکھیں کہ ان کی اسانید کس قدر ضعیف ہیں ۔ جن کا شیخ محمد رضا الحسین الحائری نے بھی اپنی کتاب ’’نجاۃ الامۃ، ص: ۱۴۵، ۱۴۶، ۱۴۸‘‘ پر صاف صاف اقرار کیا ہے۔ یہ کتاب قم ایران سے ۱۴۱۳ ہجری میں شائع ہوئی ہے۔ کیا تیجانی اب بھی کچھ کہنے کو تیار ہیں ؟ دکتور احمد راسم نفیس کی اس بات کا کیا جواب ہے کہ ’’امویوں نے حقائق کو بدل ڈالا، انہوں نے المیہ کے دن کو عید کا دن بنا دیا اور آج تک اسی پر عمل چلا آ رہا ہے۔‘‘[1] کیا شیعہ حضرات اور بالخصوص تیجانی اور دکتور راسم یہ ماننے کو تیار ہیں کہ طوسی، صدوق، الحر العاملی، نوری طبرسی اور ابن طاؤ وس بھی بنو امیہ کے پروپیگنڈا کی زَد میں آ کر حقائق کو بدلتے اور مسخ کرتے رہے اور عاشوراء کے روزہ کو ثابت کرنے اور اس کے رکھنے کی ترغیب دیتے رہے؟ دکتور راسم بتلائیں کہ ان کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے؟!! شیعہ حضرات انصاف سے کام کیوں نہیں لیتے اور شیعوں پر یہ حقیقت کیوں آشکارا نہیں کرتے کہ اہل سنت اس دن کا روزہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں رکھتے ہیں جس کا ثبوت ان معتبر روایات سے ہوتا ہے جو شیعہ اور سنی دونوں کے نزدیک معتبر ہیں ۔ جن کا اعتراف شیعہ شیخ ابن طاؤ وس نے بارہا کیا ہے؟!! اگر تم محض اس لیے سنیوں پر خار کھائے بیٹے ہو کہ عاشوراء کے دن یہ لوگ غم حسین میں اس طرح کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے جس طرح شیعہ کرتے ہیں تو ہم انہیں دو جواب دیتے ہیں : ۱۔ فریقین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس دن کا روزہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا اور یہی اہل سنت کا فعل ہے۔ الحمد للہ ۲۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن کو سوگ منانے اور اس دن نوحہ کرنے کا حکم نہیں دیا۔ جیسا کہ شیعہ لوگ کرتے ہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرما کر نوحہ کرنے سے منع فرمایا ہے: ’’نوحہ کرنا جاہلیت کا فعل ہے۔‘‘ یہ حدیث فریقین کے نزدیک بالاتفاق صحیح ہے۔
Flag Counter