قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ اب اس نے چلاتے ہوئے اپنے لشکر کو حکم دیا کہ حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ وہ آپ پر ٹوٹ پڑے۔ پہلے زرعہ بن شریک تمیمی نے آپ پر تلوار سے وار کیا پھر سنان بن انس نخعی نے آپ کو برچھا مارا اور سر کاٹ دیا۔[1] یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کو عمرو بن بطار ثفصبی اور زید بن رقادہ حسینی نے قتل کیا تھا۔[2] اس بارے میں شمر بن ذی الجوشن کا نام بھی لیا جاتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کے سر مبارک کو خولی بن یزید نے ابن زیاد کے پاس پہنچایا۔[3] سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ محرم ۶۱ ہجری کو پیش آیا،[4] آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں میں سے ۷۲ لوگوں نے جام شہادت نوش کیا۔ جبکہ عمر بن سعد کے لشکر کے ۸۸ لوگ مارے گئے۔ جنگ ختم ہونے کے بعد عمر بن سعد نے حکم دیا کہ کوئی بھی شخص حسین رضی اللہ عنہ کی عورتوں اور بچوں کے پاس نہ جائے اور ان کے ساتھ کسی قسم کی بدسلوکی کا مظاہرہ نہ کرے۔[5] پھر عمر بن سعد نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر مبارک اور ان کی خواتین اور بچوں کو ابن زیاد کے پاس بھجوا دیا۔[6] معرکہ کربلا میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی اولاد سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ ، جعفر، عباس، ابوبکر، محمد اور عثمان، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد سے علی الاکبر اور عبداللہ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد سے عبداللہ، قاسم اور ابوبکر، عقیل رضی اللہ عنہ ابی طالب کی اولاد سے عبداللہ، عبدالرحمن، عبداللہ بن مسلم، عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کی اولاد سے عون اور محمد مقتول ہوئے۔ جبکہ مسلم بن عقیل کو کوفہ میں قتل کر دیا گیا تھا۔[7] ان سب کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے سے ہے۔
مگر یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت میں سے جو لوگ اس موقعہ پر شہید ہوئے ان میں ابوبکر بن علی، عثمان بن علی اور ابوبکر بن حسین کے نام بھی آتے ہیں ۔ مگر جب آپ شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے موضوع پر تالیف کردہ شیعہ کتب پڑھیں گے تو ان کا کہیں نام و نشان تک نہیں ملے گا، تاکہ یہ نہ کہا جا سکے کہ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے اپنے بچوں کے نام ابوبکر و عمر اور عثمان کے ناموں پر رکھے تھے یا حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کا نام ابوبکر رکھا تھا۔[8]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ جب عبیداللہ بن زیاد کے سامنے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر لایا گیا تو وہ آپ کے لبوں پر چھڑی
|