مارتے ہوئے کہنے لگا: یہ بہت خوبصورت تھے؟ جب اس نے بار بار یہی حرکت کی تو میں نے کہا: اللہ کی قسم میری ان دونوں آنکھوں نے دیکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہونٹ ان ہونٹوں پر رکھتے اور ان کا بوسہ لیتے تھے۔[1] یہ سن کر وہ اس حرکت سے باز آ گیا۔[2]
صحیح بخاری میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عبیداللہ بن زیاد کے پاس حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا سر لایا گیا تو اس نے اسے ایک تھال میں رکھا اور اس پر چھڑیاں مارنے لگا اور ان کے حسن و جمال کے بارے میں کوئی قابل اعتراض بات کی۔ اس پر انس رضی اللہ عنہ کہنے لگے: حسین رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گہری مشابہت رکھتے تھے۔ اس وقت ان کے داڑھی اور سر کے بالوں پر وسمہ کا خضاب تھا۔[3]
جب اہل بیت کی خواتین اور بچے عبیداللہ بن زیاد کے سامنے پہنچے تو اس نے انہیں ایک الگ مکان فراہم کرنے کا حکم دیا۔ انہیں خوراک فراہم کی اور انہیں کپڑے اور دیگر اخراجات فراہم کرنے کا حکم دیا۔[4]
بعض روایات میں بتایا گیا کہ ابن زیاد نے ہر اس بچے کو قتل کرنے کا حکم دیا جس کے زیر ناف بال اگ آئے ہوں ، ان روایات میں بتایا گیا ہے کہ جب انہوں نے علی بن حسین(زین العابدین) رضی اللہ عنہما کے جسم سے کپڑا اٹھایا تو معلوم ہوا کہ ان کے زیر ناف بال اگ آئے ہیں تو اس نے انہیں قتل کرنے کا حکم جاری کر دیا مگر ان کی بہن زینب آڑے آئیں جس سے ان کی زندگی بچ گئی۔[5]مگر یہ سب باتیں غلط اوربے اصل ہیں ، یہ بات بھی صحیح نہیں ہے کہ ابن زیاد نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان کی خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی تھی یا انہیں شام بھیجتے وقت ان کے ساتھ غیر مناسب رویہ اختیار کیا۔ تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ ابن زیاد نے اہل بیت کی خواتین کو الگ رہائش فراہم کرنے اور انہیں خوراک، لباس اور دیگر اخراجات مہیا کرنے کا حکم دیا تھا۔[6] ان روایات کی تردید کرتے ہوئے ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’یہ کہنا کہ ابن زیاد نے اہل بیت کی خواتین کو قیدی بنا لیا، انہیں مختلف شہروں میں گھمایا اور انہیں اونٹوں کی ننگی پیٹھوں پر سوار کیا، تو یہ سب کچھ جھوٹ اور باطل ہے۔ بحمد اللہ مسلمانوں نے کبھی کسی ہاشمی خاتون کو قیدی نہیں بنایا اور نہ امت محمدیہ نے کبھی کسی ہاشمی خاتون کو حلال ہی سمجھا۔ جاہل اور نفسانی خواہشات کے پجاریوں کا شیوہ ہی بکثرت کذب بیانی سے
|