Maktaba Wahhabi

278 - 441
تو میں ایسا ضرور کرتا۔‘‘[1] پھر یزید نے ابن مرجانہ فارسیہ پر رد بھی کیا اور اسے قیدیوں کو شام بھیج دینے کا حکم دے بھیجا۔ جبکہ ابو خالد ذکوان کو پہلے بھیج دیا اور حکم دیا کہ انہیں سفر کی تیاری کے لیے دس ہزار درہم دئیے جائیں ۔[2] گزشتہ میں یہ بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ امیر کوفہ نے آل بیت حسین رضی اللہ عنہ کے لیے ایک الگ جگہ کا حکم دیا اور انہیں نفقہ اور خلعتوں سے نوازا۔ اس باب میں مروی اصح روایات یہ امر واضح طور پر بیان کرتی ہیں کہ یزید کو قتل حسین رضی اللہ عنہ پر ذرا بھی خوشی نہ ہوئی تھی بلکہ یزید بے حد غم زدہ اور غمگین ہو گیا تھا کیونکہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا قتل یزید کے والد ماجد سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی وصیت کے خلاف تھا جنہوں نے خاص طور پر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں وصیت اور ان کے حق کے اکرام کی بے حد تاکید کی تھی۔ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کے سامنے جناب حسین رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کو خوب واضح فرمایا تھا اور بتلایا تھا کہ مسلمانوں کے دلوں میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی بے پناہ محبت و تعظیم ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں حکومت کا منہج جناب حسین رضی اللہ عنہ جیسے موقف رکھنے والے شخص کے ساتھ ویسا معاملہ کرنا نہ تھا جو شیعان کوفہ نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ روا رکھا تھا جس کا نمایاں عنصر غدر و خیانت تھا۔ بلکہ اس دور میں سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی سیاست، جس کو ان سے ان کے بیٹے یزید نے سیکھا، یہ تھی کہ کریمانہ اخلاق کے ساتھ امت مسلمہ کے زعماء اور سربرآوردہ افراد کو اپنی طرف مائل کیا جائے اور ان کا بے پناہ اکرام کر کے ان کی رضا اور اخلاص کو حاصل کیا جائے۔ چنانچہ یزید کو اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر، عظیم المرتبت اور رفیع الشان صحابی رسول اور سبط رسول کو قتل کر کے اسے کن بدنامیوں اور رسوائیوں کا طوق اپنے گلے میں ڈالنا پڑے گا، جبکہ آخرت کی ذلتیں اور رسوائیاں اس کے علاوہ ہیں اور اس سب پہ مستزاد یہ کہ خود یزید کی صفوں میں وہ انتشار اور خلفشار پیدا ہو جائے گا جس کا تدارک اس کے لیے از حد کٹھن ثابت ہو گا۔ اس لیے ہم جزم کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ یزید کو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل کے المیہ پر بے حد حزن و ملال ہوا، گو دونوں میں قرابت و رحم کا رشتہ نہ تھا۔ کیونکہ یہ امر خود اس کے والد ماجد سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کی جناب حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے بارے میں وصیت کے خلاف تھا اور یہی بات زیادہ صحیح اور واقعہ کے زیادہ قریب ہے۔
Flag Counter