Maktaba Wahhabi

165 - 441
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصَّابِرِیْنَ﴾ ’’صبر کرو کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ اے لوگو! تم جو مقام و مرتبہ چاہتے ہو اسے ناگواریوں پر صبر کیے بغیر حاصل نہیں کر سکتے۔ اللہ تم لوگوں پر رحم کرے ’’نخیلہ‘‘ میں اپنے معسکر کی طرف نکلو تاکہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ لیں ۔‘‘ احمد نفیس کہتا ہے: ’’ حسن( رضی اللہ عنہ ) نے گویا ان الفاظ میں اس خدشہ کا اظہار کیا ہے کہ کہیں یہ شیعہ ہمیں چھوڑ نہ دیں ۔پس وہ شیعہ یہ بات سن کر خاموش ہو گئے، ان میں سے کسی نے کوئی بات نہ کی اور نہ کسی نے ایک حرف بھی جواب میں کہا۔ لوگوں میں عدی بن حاتم( رضی اللہ عنہ ) بھی تھے، جب انہوں نے ان شیعہ کی یہ بے حسی دیکھی تو اٹھ کر یوں گویا ہوئے: ’’سبحان اللہ! میں ابنِ حاتم ہوں یہ کس قدر شرم اور ذلت کا مقام ہے کہ تم لوگ اپنے امام کو جواب تک نہیں دیتے حالانکہ وہ تمہارے پیغمبر کی لخت جگر کے بیٹے ہیں ؟ مضر کے خطباء کہاں ہیں جن کی زبانیں حالت امن میں تلواروں کی طرح تیز ہوتی ہیں ؟ اور جب گمبھیر حالات پیش آتے ہیں تو لومڑیوں کی طرح ڈرپوک ثابت ہوتے ہیں ؟ کیا تم لوگ اللہ کی ناراضی اور اس کے انتقام سے نہیں ڈرتے؟[1] یہی قصہ ادریس حسینی نے بھی نقل کیا ہے۔[2] دکتور احمد راسم نفیس سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے اس خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’یہ لوگ ذہنی اور نفسیاتی شکست سے دوچار تھے، انہیں جہاد میں کوئی رغبت نہ تھی اور نہ ان میں جان و مال خرچ اور قربانی دینے کا کوئی جذبہ تھا۔ یہ دنیا اور اس کی حلاوت کو آزما چکے تھے اور اب یہ دنیا کے ہی طلب گار تھے۔ یہ لوگ عدل کے سائے تلے رہ کر نفس کی خواہشوں کو پورا نہ کر سکتے تھے۔ ان کے نفس بنی امیہ کی طرف مائل تھے جو اگلے مرحلہ کے قائدین تھے۔‘‘[3] اہل کوفہ نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ جو غداری کی اور ان پر کدال کا وار کیا، اس کو نقل کرتے ہوئے دکتور احمد راسم شیعی لکھتا ہے: ’’اس کے بعد حسن( رضی اللہ عنہ ) نے اعلان کر دیا کہ وہ میدانِ قتال کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں ،
Flag Counter