اس پر قیس بن سعد بن عبادہ ( رضی اللہ عنہما ) اور معقل بن یسار ( رضی اللہ عنہ ) نے بھی کھڑے ہو کر وہی کہا جو عدی بن حاتم( رضی اللہ عنہ ) نے کہا تھا اور اپنے معسکر کی طرف چل پڑے، جس پر لوگ بھی ان کے پیچھے تھے۔
حسن ( رضی اللہ عنہ ) نے لشکر کی مورچہ بندی کی، انہیں قتال کے لیے تیار کیا، پھر ان میں خطبہ دیا۔ لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے جا رہے تھے، وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے: یہ کیا کہنا چاہتے ہیں ؟ بولے: شاید یہ معاویہ( رضی اللہ عنہ ) سے صلح کرنا اور امر خلافت ان کے ہاتھوں میں دینا چاہتے ہیں ۔ اللہ کی قسم! اس آدمی نے اس بات کا ارادہ کر کے کفر کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کے بعد ان لوگوں نے جناب حسن رضی اللہ عنہ کے خیمہ پر ہلہ بول دیا اور اندر گھس کر خیمہ لوٹ لیا۔ حتیٰ کہ ان کے نیچے سے ان کا مصلیٰ بھی کھینچ لیا۔ پھر عبدالرحمن بن عبداللہ بن جعال ازدی نے آگے بڑھ کر سختی کے ساتھ آپ کے کندھے پر سے آپ کی دھاری دار ریشمی چادر کھینچ کر اتار لی۔ اب آپ بغیر چادر کے تلوار حمائل کیے ہوئے باقی رہ گئے۔ پس آپ نے اپنا گھوڑا منگوایا اور اس پر سوار ہو کر چل دئیے۔
جب آپ ساباط سے گزر رہے تھے تو بنی اسد کے ایک آدمی نے آگے بڑھ کر رات کے اس اندھیرے میں آپ کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور اور کہا: اللہ اکبر! اے حسن! پہلے تیرے باپ نے شرک کیا اور اب تو شرک کرتا ہے۔ یہ کہہ کر آپ پر کدال کا ایک وار کر دیا جو آپ کی ران پر پڑا۔ اس وار نے گوشت پھاڑ کر زخم کر دیا اور ران کی جڑ پر سے کھال ادھیڑ دی۔ آپ زخمی ہو کر گر پڑے۔ بعد میں آپ کو ایک تخت پر بٹھا کر اسی زخمی حالت میں مدائن منتقل کر دیا گیا۔‘‘[1]
ایک اور مصنف ادریس حسینی اہل کوفہ کی غداری کی یہ تصویر پیش کرتا ہے:
’’حسن ( رضی اللہ عنہ ) کو اپنے ہی لشکر کی طرف سے قاتلانہ حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ چنانچہ ایک مرتبہ بنی اسد کا ایک شخص جراح بن سنان آیا۔ اس نے آپ کے خچر کی لگام پکڑی اور آپ کی ران میں گہرا زخم لگایا۔ حسن ( رضی اللہ عنہ ) نے اسے پکڑ کر دبوچ لیا جس سے دونوں زمین پر گر گئے۔ حتیٰ کہ عبداللہ بن حنظلہ طائی سامنے آیا، اس نے جراح سے کدال چھینی اور اسے ایک ضرب لگائی۔ جبکہ حسن ( رضی اللہ عنہ ) کو دوسری مرتبہ نماز کے دوران میں وار کر زخم لگایا گیا۔‘‘[2]
اہل تشیع کا مرجع کبیر ’’محسن الامین العاملی‘‘ لکھتا ہے:
|