Maktaba Wahhabi

167 - 441
’’پھر علی ( رضی اللہ عنہ ) کے بیٹے حسن ( رضی اللہ عنہ ) کی بیعت کر لی گئی لیکن ان کے ساتھ عہد و پیمان کرنے کے باوجود ان کے ساتھ غداری کا ارتکاب کیا گیا، انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ اہل عراق نے ان پر حملہ کر کے ان کے پہلو میں خنجر کا ایک وار کیا۔‘‘[1] محمد تیجانی سماوی لکھتا ہے: ’’جیسا کہ بعض جاہل حسن ( رضی اللہ عنہ ) پر یہ تہمت لگاتے ہیں کہ انہوں نے معاویہ( رضی اللہ عنہ ) سے صلح کر کے اور مخلص مسلمانوں کو قتل ہونے سے بچا کر مومنوں کو ذلیل کیا ہے۔‘‘[2] آیت اللہ اعظمی حسین فضل اللہ لکھتا ہے: ’’حسن( رضی اللہ عنہ ) کے لشکر میں خوارج کی بھی ایک ٹولی تھی۔ یہ حسن( رضی اللہ عنہ ) کی محبت میں ان کے ساتھ نہ نکلے تھے بلکہ صرف اس لیے نکلے تھے کہ وہ ہر صورت میں معاویہ( رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ جنگ کرنا چاہتے تھے، چاہے اس کے لیے کسی بھی شخص کا ساتھ دے کر لڑنا پڑے۔ پھر کچھ لوگ صرف مالِ غنیمت کے لالچ میں لشکر میں آ نکلے تھے۔ کچھ لوگ قبائلی عصبیت کے جذبوں کے ہاتھوں مجبور ہو کر نکلے تھے اور ان میں اس قبائلی عصبیت کو ان کے سرداروں نے پھونکا تھا جو جاہ و مال کی محبت کے اسیر بے زنجیر تھے۔ یہ لوگ لشکر حسن( رضی اللہ عنہ ) میں بگاڑ اور انتشار پیدا کرنے آئے تھے۔ لشکر میں بعض حسن( رضی اللہ عنہ ) کے قرابتی رشتہ دار بھی تھے جن کی طرف معاویہ( رضی اللہ عنہ ) نے مال بھیجا تو انہوں نے اپنی قیادت کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ لشکر سے اس مضمون پر مشتمل بے شمار خطوط معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجے گئے کہ ’’اگر آپ چاہیں تو ہم حسن( رضی اللہ عنہ ) کو زندہ یا مردہ کسی بھی حال میں آپ کے حوالے کرتے ہیں ۔‘‘ چنانچہ معاویہ( رضی اللہ عنہ ) نے بھی اس پر اپنی موافقت لکھ بھیجی کہ ایسا کر گزرو، حسن( رضی اللہ عنہ ) کو زندہ یا مردہ میرے حوالے کرو۔ پھر خود لشکر حسن کی پوری خبر گیری کی اور دیکھتے رہے کہ یہ لوگ حسن( رضی اللہ عنہ ) کو قتل کرنے کی سازش کیونکر کرتے ہیں ۔‘‘[3] شیخ ابو منصور طبرسی انہی حالات کے تناظر میں سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کرتا ہے: ’’اللہ کی قسم! میں معاویہ( رضی اللہ عنہ ) کو ان سے بہتر دیکھ رہا ہوں جو خود کو میرا شیعہ سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ
Flag Counter