Maktaba Wahhabi

168 - 441
یہ لوگ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں اور انہوں نے مال اسباب بھی لوٹ لیا ہے۔ اللہ کی قسم! اگر معاویہ( رضی اللہ عنہ ) میری اور میرے اہل کی جان کی حفاظت کا مجھ سے عہد کر لیں تو یہ میرے لیے اس سے بہتر ہے کہ یہ مجھے قتل کر ڈالیں جس سے میرے اہل بیت ضائع ہو جائیں اور اگر میں معاویہ( رضی اللہ عنہ ) سے قتال کرتا ہوں تو یہ لوگ مجھے میری گردن سے پکڑ کر ان کے حوالے کر دیں گے۔‘‘[1] امیر محمد کاظم قزوینی لکھتا ہے: ’’صحیح تاریخ ہمارے لیے یہ بات ثابت کرتی ہے کہ جو لوگ حسن( رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ تھے اگرچہ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی لیکن وہ پرلے درجے کے خائن اور غدار تھے۔ اسی لیے دشمنوں سے قتال کے وقت ان کی اتنی زیادہ تعداد بھی امام حسن علیہ السلام کے کام نہ آئی۔ ان کی خیانت اور غداری اس حد تک جا پہنچی کہ انہوں نے معاویہ( رضی اللہ عنہ ) کو یہ لکھ بھیجا: ’’اگر آپ کہیں تو ہم حسن علیہ السلام کو آپ کے حوالے کر دیتے ہیں ۔‘‘ اور ان میں سے ایک نے کدال مار کر آپ کی ران میں ایسا گہرا زخم ڈالا جو ہڈی تک جا پہنچا اور اس حملہ آور نے ایسی گری ہوئی زبان جناب حسن علیہ السلام کے ساتھ استعمال کی تھی کہ جس کے ذکر کی ہمت بھی نہیں ہوتی۔ اگر خود ان ائمہ نے یہ نہ کہا ہوتا کہ ہمارے شیعہ ہمارے بارے میں جو بھی کہیں وہ بیان کر دیا کرو تو ہم کبھی ان الفاظ کو ذکر نہ کرتے۔ سنیے! اس حملہ آور نے یہ کہا تھا: ’’اے حسن! تم نے بھی اسی شرک کا ارتکاب کیا جس کا ارتکاب تم سے پہلے تیرے باپ نے کیا تھا۔‘‘ چنانچہ جب امام حسن علیہ السلام نے اہل کوفہ میں غدر و خیانت دیکھی تو معاویہ( رضی اللہ عنہ ) سے صلح کر لی اور مسلمانوں کی خوں ریزی روکنے اور اپنے اور اپنے اہل بیت کے دھوکے سے قتل کر دئیے جانے سے حفاظت کی خاطر جنگ بندی کر لی تاکہ ایک تو آپ کو کوئی دھوکے سے قتل نہ کر سکے اور دوسرے آپ کے اہل بیت بے جا ضائع نہ ہوں جس کا نہ انہیں کوئی فائدہ ہو اور نہ اسلام اور مسلمانوں ہی کو کوئی فائدہ ہو۔‘‘[2] ادریس حسینی، سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کے اپنے شیعہ کو کیے گئے خطاب کو نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اے اہل عراق! مجھے تین باتوں نے تم لوگوں سے علیحدہ ہونے پر مجبور کیا ہے: (۱) میرے باپ
Flag Counter