کو تم لوگوں کا قتل کرنا، (۲) مجھ پر کدال کا وار کر کے شدید زخمی کرنا (۳) اور میرا مال و اسباب لوٹ لینا۔‘‘[1]
اس خطاب کو نقل کر کے وہ لکھتا ہے:
’’غرض انہوں نے اپنے ائمہ (سیّدنا علی، سیّدنا حسن، سیّدنا حسین رضی اللہ عنہم ) کو بے پناہ آمائشوں میں ڈالا۔ ان حضرات کی آزمائشوں کا یہ سلسلہ امام جعفر صادق( رحمہ اللہ ) تک جا پہنچا اور انہیں بھی انہی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑا جس سے ان کے اجداد کا سامنا ہوا تھا۔ چنانچہ ہم ان میں زرارہ بن اعین نامی کو دیکھتے ہیں (عبدالحسین موسوی نے ’’المراجعات‘‘ میں زرارہ کا ناحق دفاع کرنے میں بڑا زور لگایا ہے) کہ وہ اپنی خست و خباثت اور کمینگی و دناء ت کا اظہار کرتے ہوئے جناب جعفر صادق رحمہ اللہ پر زبانِ طعن دراز کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ ’’اللہ ابو جعفر پر رحم کرے اور رہے ان کے والد جعفر تو میرے دل میں ان کے بارے میں ایک بات ہے۔‘‘[2]
امام جعفر صادق رحمہ اللہ نے جب زرارہ کی بدعت پر انکار کیا تو اس نے یہ کہہ کر اس بدعت کو ان کی طرف منسوب کر دیا: ’’اللہ کی قسم! انہوں نے مجھے استطاعت دی اور انہیں اس کی خبر بھی نہیں ۔‘‘[3]
جب زرارہ نے امام جعفر صادق رحمہ اللہ کے پاس حاضر ہونے کی اجازت مانگی تو انہوں نے اجازت نہ دی اور تین بار یہ کہا: ’’اسے اندر آنے کی اجازت مت دینا، یہ اس بڑھاپے میں مجھے قدریہ بنانا چاہتا ہے جو نہ میرا دین ہے اور نہ میرے آباء و اجداد کا دین ہے۔‘‘[4]
ایسی ہی بدعقیدگی ان ائمہ کے دوسرے ان اصحاب سے بعید نہیں جیسے ابو بصیر، جابر جعفی اور ہشام بن حکم وغیرہ جن کا دفاع کرنے میں صاحب ’’المراجعات‘‘ نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے۔[5]
حضرات اہل بیت نے ان کے اس کردار کو دیکھتے ہوئے ان پر نفاق کا حکم لگایا ہے۔ چنانچہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ کہتے ہیں :
’’رب تعالیٰ نے منافقین کے بارے میں جو بھی آیت نازل کی ہے وہ انہی پر صادق آتی ہے۔‘‘[6]
امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے مروی ایک روایت میں یہ بھی آتا ہے:
|