حسین رضی اللہ عنہ ہمیں حسن دعا اور اللہ تعالیٰ سے التجا کی تعلیم دے رہے ہیں ۔ ہمارے لیے ان کی یہ بھی تعلیم ہے کہ اللہ تعالیٰ پر ہی اعتماد کرنا اور اسی پر توکل رکھنا چاہیے اور اسی کی طرف رغبت رہنی چاہیے۔ ان کے نانا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے بڑھ کر کوئی شے بھی عزت والی نہیں ہے۔‘‘[1]
سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے نانا علیہ السلام سے یہ تعلیم حاصل کی کہ استعانت صرف اللہ سے ہونی چاہیے اور شکایت اسی کے حضور کرنی چاہیے، نہ کہ کسی نبی، امام یا نیک انسان کے سامنے۔ حسین رضی اللہ عنہ ہمیں اس بات کی بھی تعلیم دے رہے ہیں کہ دعا صرف اور صرف ایک اللہ سے کرنی چاہیے، اس مشکل ترین مرحلہ میں جس میں وہ اپنی زندگی کو بھی الوداع کہنے والے ہیں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے نہ تو اپنے نانا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی اور نہ اپنے باپ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے، بلکہ صرف اللہ وحدہٗ لا شریک سے دعا کی، حسین رضی اللہ عنہ ہمیں اس دعا میں جس منہج کی تعلیم دے رہے ہیں ہمارے لیے ضروری قرار پاتا ہے کہ ہم اس سے انحراف نہ کریں ، اور وہ منہج یہ ہے کہ انسان کو اگر کوئی حاجت درپیش ہو، اسے رزق کی ضرورت ہو یا مریض کے لیے شفا کی تو اس پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایک اللہ سے دعا کرے اور اپنی دعا میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے، وہ جو بھی ہو اور جتنا بڑا بھی ہو۔[2]
لہٰذا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ محبت رکھنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ حسین رضی اللہ عنہ کی طرح صرف اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور ’’یا حسین‘‘ اور ’’یا علی‘‘ نہ پکارا کرے، اس لیے کہ مخلوق سے دعا کرنے میں کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور علمائے ربانیّین کے طریقہ سے انحراف عظیم ہے جن میں ائمہ اہل بیت سرفہرست ہیں ۔
شاعر کہتا ہے:
و افتنیۃ الملوک محجبات
و باب اللہ مبذول الفناء
فما ارجو سواہ لکشف ضری
و لا افزع الی غیر الدعا[3]
|