کرتے ہوئے اس بیعت کو توڑ ڈالا۔ (تم لوگ) اس امت کے (طاغوت ہو، اور اس امت کے) طاغوتوں کے لیے ہلاکت اور دُوری ہو۔‘‘[1]
کوفی لشکر میں حر بن یزید نامی ایک آدمی بھی تھا جو اپنے ارادوں پر نادم ہو کر سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ آ ملا تھا۔ اس نے کوفیوں کو للکار کر کہا:
’’کیا تم لوگ ایسا کرتے ہو کہ پہلے رب کے اس نیک بندے کو بلایا، پھر جب وہ تمہارے پاس چلا آیا تو اسے چھوڑ کر اس کے دشمن بن گئے تاکہ اسے قتل کر دو؟ اور اب وہ تمہارے ہاتھوں میں ایک قیدی کی طرح ہے۔ اللہ تمہیں پیاس کے دن پینے کو کچھ نہ دے۔‘‘[2]
پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے انہیں بددعا دیتے ہوئے فرمایا:
’’اے اللہ! اگر تو نے انہیں ایک وقت تک مہلت دی تو انہیں فرقہ فرقہ کر دینا اور انہیں کئی راستوں والا بنا دینا، ان سے کوئی والی کبھی راضی نہ ہو کہ ان لوگوں نے ہمیں ہماری مدد کرنے کے لیے بلایا لیکن پھر ہمارے دشمن بن گئے اور ہمیں قتل کرنے لگے۔‘‘[3]
کیا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اس قول کے بعد قاتلانِ حسین کی تحدید و تعیین میں کسی شخص کے لیے کہنے کو کچھ باقی رہ گیا ہے؟ جب کوفیوں نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور ان کی غداری و عیاری اور خیانت و دغا بازی کھل کر سامنے آ گئی تو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ ارشاد فرمایا:
’’تم لوگ ہمیں چھوڑتے ہو؟ ہاں ! اللہ کی قسم! تم لوگ جفا کار ہو، تمہاری جفاکاری معروف ہے، تمہاری اگلی پچھلی نسلیں اس مذموم صفت کی رسیا اور گرویدہ ہیں ، تم اس درخت کا پھل ہو جو دیکھنے والے کے لیے خبیث ترین اور کھانے والے کے لیے بدترین ہے۔ سن لو! جن لوگوں نے عہدوں کو پختہ کرنے کے بعد اور اس پر رب کو ضامن و کفیل بنانے کے بعد ان کو توڑ ڈالا، ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ ظلم دو چیزوں کے درمیان مضبوط ہوا ہے، سوال اور ذلت کے درمیان۔ یہ ذلت مجھ سے دُور ہو، اللہ، اس کا رسول اور اہل ایمان اس کمینگی سے انکار کرتے ہیں ۔ غیرت مند گودیں ، پیٹ اور ناک مر جانا قبول کر لیتے ہیں لیکن اپنی اولادوں کو کمینی انّاؤ ں کے حوالے نہیں کرتے۔ سن لو! میں اپنے خاندان کے ان چند افراد کو لے کر جا رہا ہوں جبکہ ہمارے دشمن تعداد
|