Maktaba Wahhabi

244 - 441
میں زیادہ ہیں اور وفادار جفاکار ہو چکے ہیں ۔‘‘ پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے یہ شعر پڑھا: فان نہزم فہزّاموان قدما و ان نہزم فغیر مہزمینا و ما ان طبنا جبن و لکن منایانا و طعمۃ آخرینا ’’اگر ہم نے دشمنوں کو شکست دے دی تو یہ ہماری پرانی عادت چلی آتی ہے کہ ہم دشمنوں کو شکست دیا کرتے ہیں اور اگر ہم شکست کھا گئے تو یہ عارضی شکست ہو گی کہ ہم دشمنوں سے بری طرح شکست نہیں کھایا کرتے۔ اگر ہم خوش ہیں تو یہ بزدلی نہیں بلکہ یہ ہماری موت کے فیصلے ہیں جبکہ دوسروں (یعنی دشمنوں ) کے لیے ذریعہ معاش ہے (کہ انہیں ہمیں قتل کر کے بڑے بڑے انعام ملیں گے)۔‘‘ (پھر فرمایا): ’’پھر تم اتنی دیر ہی ٹھہرنا جتنی دیر میں گھوڑے پر سوار ہونے میں لگاؤ ں یہاں تک کہ گھمسان کی جنگ شروع ہو جائے اور میں تمہیں بھی اسی بات کا عہد دیتا ہوں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے والد کو دیا تھا اور وہ رب تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿فَاَجْمِعُوْٓا اَمْرَکُمْ وَ شُرَکَآئَ کُمْ ثُمَّ لَا یَکُنْ اَمْرُکُمْ عَلَیْکُمْ غُمَّۃً ثُمَّ اقْضُوْٓا اِلَیَّ وَ لَا تُنْظِرُوْنِo﴾ (یونس: ۷۱) ’’سو تم اپنا معاملہ اپنے شرکاء کے ساتھ مل کر پختہ کر لو، پھر تمھارا معاملہ تم پر کسی طرح مخفی نہ رہے، پھر میرے ساتھ کرگزرو اور مجھے مہلت نہ دو۔‘‘[1] اس خطاب میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ یہ بات صاف صاف بتلا رہے ہیں کہ جن لوگوں نے انہیں دعوت دی خاص طور پر اہل کوفہ، وہ غدار و جفاکار ہیں ، اور غداری اور جفاکاری ان کے اصول و فروع کی جڑوں میں گھسی ہوئی ہے۔ یہ لوگ شجرۂ خبیثہ ہیں ، یہ عہدوں کو پختہ کرنے کے بعد ان کو توڑ دینے والے ہیں ۔ اُمت مسلمہ جانتے ہیں کہ یہ ان منافقوں کا حال ہے جن سے بچنے کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو سخت تاکید کی تھی۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا تاکید کے ساتھ اس بات کو بیان کرنا کہ یہ اہل کوفہ کی صفات ہیں اور وہ نسل در نسل ان
Flag Counter