صفات سے آراستہ چلے آ رہے ہیں ، ان کے منافق اور خائن و غدار ہونے کی بلیغ ترین شہادت ہے۔ پھر اس کے بعد سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کا ان کو لعنت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اہل کوفہ دنیا و آخرت میں ہلاک و برباد ہوئے اور انہیں دونوں جہانوں کی رسوائی ملی۔ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اہل کوفہ کو یہ بھی باور کروایا کہ آل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم عربوں کے سردار اور ان کے رہنما ہیں ، مداہنت اور عہد شکنی ان کا شیوہ نہیں ۔ وہ تو صبر و جرأت کے پیکر اور آخرت اور اس کی نعمتوں کے طالب ہیں نہ کہ دنیا کے طالب ہیں جیسے میدان کربلا کے غدار اور عہد شکن کوفی تھے جنہوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو ان کی زندگی میں بھی کھایا اور بالآخر ان کی جان لے لی، اور ان کی شہادت کے بعد آج تک ان کے نام پر کھا رہے ہیں ۔ آخر روزِ قیامت رب کے روبرو یہ کس منہ سے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے آئیں گے؟
چنانچہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کے نور نظر سیّدنا علی بن حسین بن علی بن ابی طالب المعروف بہ امام زین العابدین رحمہ اللہ کوفہ میں داخل ہوئے اور انہوں نے کوفیوں کی عورتوں کو سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ پر روتے دیکھا تو فرمانے لگے:
’’یہ عورتیں ہم پر رو رہی ہیں تو پھر ہمیں قتل کس نے کیا ہے؟‘‘
یعنی تمہارے سوا ہمارا قاتل پھر کون ہے؟[1]
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے جب خلافت سے دست بردار ہو کر سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے صلح کر لی تو اہل بیت سے محبت کے دعوے داروں میں ، جو دراصل قاتلان علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ تھے اور بعد میں ان ہی لوگوں کی قسمت میں خونِ حسین کرنے کی بدبختی بھی لکھی جا چکی تھی، خطاب کرتے ہوئے یہ فرمایا:
’’اے اہل کوفہ! مجھے تین باتوں کی وجہ سے تم لوگ اچھے نہیں لگتے:
(۱) تم لوگوں نے میرے باپ کو قتل کیا۔
(۲) تم لوگوں نے میرا سامان لوٹا۔
(۳) اور تم لوگوں نے میرے پیٹ میں کدال کا وار کیا۔
اب سن لو کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی ہے، ان کی بات سنو اور مانو۔‘‘
حضرت حسن رضی اللہ عنہ پر بنی اسد کے ایک آدمی نے کدال لے کر وار کیا تھا اور ران کا گوشت پھاڑ دیا حتیٰ کہ ہڈی نظر آنے لگی تھی۔[2]
|