سے لڑیں گے۔‘‘[1]
عباس قمی لکھتا ہے:
’’کوفہ سے لگاتار خطوط آنے کا عالم یہ تھا کہ ایک دفعہ ایک ہی دن میں ایک ہزار خطوط آئے جن میں امام حسین( رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ وفا کا اظہار تھا لیکن افسوس کہ وفا کا اظہار کرنے والے یہی لوگ پرلے درجے کے بے وفا تھے۔ اس سب کے باوجود جناب حسین( رضی اللہ عنہ ) ٹالتے رہے اور کسی ایک بات کا بھی جواب نہ دیا حتیٰ کہ بارہ ہزار خطوط جمع ہو گئے۔‘‘[2]
علی بن موسیٰ بن جعفر بن طاؤ وس حسینی لکھتا ہے:
’’اہل کوفہ کو اس بات کی خبر مل گئی کہ امام حسین( رضی اللہ عنہ ) مدینہ سے مکہ پہنچ گئے ہیں اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آپ یزید کی بیعت نہیں کر رہے۔ پس یہ لوگ سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان میں جمع ہوئے۔ جب سب لوگ اکٹھے ہو گئے تو سلیمان بن صرد نے ان میں خطبہ دیا اور خطبہ کے آخر میں یہ کہا: ’’اے گروہ شیعہ! تم جانتے ہو کہ معاویہ( رضی اللہ عنہ ) ہلاک ہو کر اپنے رب سے جا ملا ہے اور ان کی مسند خلافت اس کے بیٹے یزید نے سنبھال لی ہے۔ یہ رہے حسین بن علی( رضی اللہ عنہما ) جو اس کے مخالف ہیں اور وہ آل ابی سفیان کے باغیوں سے بھاگ کر مکہ چلے آئے ہیں ۔ تم لوگ ان کے اور ان سے پہلے ان کے باپ کے شیعہ ہو۔ آج وہ تمہاری مدد کے محتاج ہیں اگر تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ تم حسین( رضی اللہ عنہ ) کے حامی و ناصر اور ان کے دشمنوں کے خلاف ان کے مددگار ہو تو انہیں خط لکھو اور اگر تمہیں بے ہمتی اور کمزوری کا ڈر ہے تو انہیں اپنی طرف سے دھوکے میں نہ رکھنا۔‘‘
علی بن موسیٰ لکھتا ہے:
’’پس انہوں نے حسین( رضی اللہ عنہ ) کو خطوط لکھنے شروع کر دئیے۔‘‘[3]
عباس قمی ایک اورجگہ لکھتا ہے:
’’پس کوفی سلیمان بن صرد خزاعی کے گھر اکٹھے ہوئے اور وہاں معاویہ( رضی اللہ عنہ ) کی ہلاکت اور یزید کی بیعت کا ذکر ہونے لگا۔ اتنے میں سلیمان نے کھڑے ہو کر یہ تقریر کی:
|