Maktaba Wahhabi

174 - 441
بن عبداللہ حنفی کے ہاتھوں پہنچا۔ آپ نے سب کے سامنے یہ خط کھولا اور پڑھ کر سنایا جس میں یہ لکھا تھا: ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم! حسین بن علی کے نام، ان کے اور ان کے والد امیر المومنین کے شیعیان کی طرف سے، اما بعد! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں ، آپ کے سوا کسی کے بارے میں بھی ان کی رائے نہیں ، اس لیے آنے میں جلدی کیجیے۔‘‘[1] دکتور احمد نفیس لکھتا ہے: ’’کوفیوں نے حسین بن علی( رضی اللہ عنہما ) کو خطوط لکھے اور ان میں یہ کہا: ’’اس وقت ہمارا کوئی امام نہیں ، آپ ہماری امارت قبول کیجیے۔ شاید اللہ ہمیں آپ کے ذریعے سے حق پر جمع کر دے۔‘‘ آپ کے پاس دستخط شدہ خطوط پہنچے جن میں کوفہ چلے آنے کی دعوت تھی تاکہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کی جائے اور بنو امیہ کے باغیوں اور طاغوتوں کے خلاف چلائی جانے والی تحریک کی قیادت آپ کے ہاتھوں میں دے دی جائے۔ یوں حسینی تحریک کے بنیادی عناصر پورے ہو گئے جو یہ ہیں : ٭ جمہور کے ارادہ کا وجود جو تبدیلی چاہتا ہے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اس بات کی ترغیب دے رہا ہے کہ اس تحریک کی زمامِ قیادت اپنے ہاتھوں میں لینے کی جلدی کریں ۔ کوفیوں کے یہ ارادے ان کے ان خطوط سے عیاں ہوتے ہیں جو انہوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کو لکھے اور جن میں سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ کی بیعت کرنے کا وعدہ کیا۔[2] محمد کاظم قزوینی لکھتا ہے: ’’اہل عراق نے امام حسین( رضی اللہ عنہ ) کو خطوط لکھے اور مسلسل مراسلت قائم رکھی اور ان سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ وہ کوفہ آئیں تاکہ ان کی بیعت خلافت کی جا سکے۔ مجموعی طور پر اہل عراق نے بارہ ہزار خطوط لکھے تھے، ان سب کا یہی ایک مضمون تھا کہ ’’پھل پک چکے ہیں ،کھیتی تیار ہے، اپنے تیار شدہ لشکر کے پاس چلے آئیے ایک لاکھ تلواریں کوفہ میں آپ کے حکم کی منتظر ہیں ، آج اگر آپ ہمارے پاس نہ آئیں گے تو کل قیامت کے دن ہم اللہ کے حضور آپ
Flag Counter