الف: ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ ماہ رمضان کے روزے فرض ہونے سے پہلے اس دن کا روزہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رکھا اور مسلمانوں نے بھی، پھر جب ماہ رمضان کے روزے فرض قرار دے دئیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عاشوراء اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے، جو کوئی چاہے اس کا روزہ رکھ لے اور جو چاہے ترک کر دے۔‘‘[1]
ب: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو یوم عاشوراء کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ کیا ہے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا: یہ نیک دن ہے اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تو موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم موسیٰ علیہ السلام کے تم سے زیادہ حق دار ہیں ۔‘‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا خود بھی روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی دیا۔ انہی سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کے روزے کا حکم دیا۔[2]
ج: ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشوراء کا حکم دیا اور اس کے روزے کا حکم دیا تو لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! یہ وہ دن ہے جس کی یہود و نصاریٰ تعظیم کیا کرتے ہیں ۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم ان شاء اللہ آئندہ سال نو تاریخ کا روزہ بھی رکھیں گے۔‘‘ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ سال سے پہلے ہی وفات پا گئے۔ دوسری روایت میں ہے: ’’اگر میں آئندہ سال تک زندہ رہا تو نو تاریخ کا بھی روزہ رکھوں گا۔‘‘[3]
انہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یوم عاشوراء کا روزہ رکھا کرو اور اس بارے میں یہود کی مخالفت کرو، ایک دن اس سے پہلے اور ایک دن اس کے بعد روزہ رکھا کرو۔‘‘[4]
علماء بتاتے ہیں کہ یوم عاشوراء کے روزے کے تین مراتب ہیں :
(۱) نو، دس اور گیارہ کا روزہ۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک دن اس سے قبل اور ایک دن اس کے بعد روزہ رکھا کرو۔‘‘
(۲) نو اور دس کا روزہ۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم ان شاء اللہ آئندہ سال نو تاریخ کا روزہ بھی رکھیں گے۔‘‘
|