صحیحہ میں ، نہ سنن میں اور نہ مسانید میں ، اس قسم کی کوئی حدیث بھی قرون فاضلہ میں معروف نہیں تھی۔ یہ بدعات یوم عاشوراء کے حوالے سے معرض وجود میں آئیں اور یہ اس لیے کہ کوفہ میں دو قسم کی جماعتیں موجود تھیں ۔ ان میں سے ایک جماعت رافضیوں کی تھی اور یہ لوگ اہل بیت کے ساتھ جھوٹ موٹ کی دوستی کو ظاہر کرتے جبکہ درحقیقت یہ لوگ بے دین قسم کے ملحد تھے یا پھر جاہل اور نفسانی خواہشات کے پجاری تھے۔ دوسری جماعت ناصبیوں کی تھی اور یہ لوگ علی رضی اللہ عنہ اور اصحاب علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے تھے۔[1] جب ان دونوں گروہوں میں عصبیت کا ظہور ہوا تو انہوں نے عاشوراء محرم کے بارے میں کئی آثار وضع کر لیے۔ رافضیوں نے عاشورۂ محرم کو ماتم کے لیے مخصوص کر لیا جبکہ ناصبیوں نے اسے یوم عید قرار دے ڈالا، جبکہ یہ دونوں گروہ ہی غلطی پر ہیں ۔ ان میں بھی بدعات اور گمراہی ہے[2]اور پھر دونوں نے ہی دین اسلام میں بدعات جاری کیں اور سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی مخالفت کی۔[3]
۱۰۔ یوم عاشوراء کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات:… یوم عاشوراء کا شمار ایامِ فاضلہ میں ہوتا ہے اور جن کے روزوں کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دلائی ہے۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہر مہینہ کے تین روزے اور ماہِ رمضان آئندہ ماہ رمضان تک زمانے بھر کے روزے ہیں اور یوم عرفہ کا روزہ رکھنا۔ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ اس کی وجہ سے وہ اس سے ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہ معاف فرما دے گا اور یوم عاشوراء کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ اس سے گزشتہ سال کے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘[4]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : میں نے نہیں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسے دن کے روزے کی جستجو کرتے ہوں جسے آپ نے دوسرے دنوں پر ترجیح دی ہو بجز یوم عاشوراء کے اور اس ماہ یعنی ماہ رمضان کے۔[5] اس بنا پر اس دن کا مسنون عمل صرف روزہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھا بھی اور اس دن کے روزے کی فضیلت کے بارے میں مطلع بھی فرمایا، جیسا کہ گزشتہ حدیث میں مذکور ہے۔ اس بارے میں مزید صحیح احادیث بھی وارد ہیں ۔
|