مسرت کا دن قرار دے دیا، وہ یا تو حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل بیت کے خلاف تعصب رکھنے والے ناصبی ہیں یا وہ جاہل ہیں جو فاسد کا فاسدسے ، جھوٹ کا جھوٹ سے، شر کا شر سے اور بدعت کا بدعت سے مقابلہ کرتے ہیں ۔
چنانچہ وہ عاشوراء کے دن غسل کرتے، سرمہ لگاتے، خوبصورت کپڑے پہنتے، معمول سے ہٹ کر کھانے تیار کرتے اور اہل و عیال پر کھلے دل سے خرچ کرتے اور اس دن کو عید بنا دیتے ہیں ، جس سے ان کا مقصود روافض کی مخالفت کرنا ہوتا ہے۔ یہ ایک دوسری بدعت ہے۔ اس بارے میں مندرجہ ذیل موضوع اور جھوٹی روایات پیش کی جاتی ہیں :
الف: حدیث: ’’جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل و عیال پر وسعت کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر سال بھر وسعت فرمائے گا۔‘‘[1]
ب: شب عاشوراء اور یوم عاشوراء کے دن مخصوص نماز کی بدعت: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص عاشوراء کے دن ظہر اور عصر کے درمیان چالیس رکعت نماز ادا کرے، ہر رکعت میں ایک بار سورۂ فاتحہ، دس بار آیۃ الکرسی، گیارہ بار قل ہو اللہ احد، پانچ بار معوذتین پڑھے اور سلام پھیرنے کے بعد ستر بار استغفار کرے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت الفردوس میں سفید قبہ عطا فرمائے گا۔‘‘[2]
علاوہ ازیں اس دن کے لیے اور بھی کئی بدعات ایجاد کر لی گئی ہیں جن کی اللہ کے دین میں کوئی اصلیت نہیں ہے۔[3] امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ بعض لوگ عاشورۂ محرم کے دن سرمہ لگاتے، غسل کرتے، مہندی لگاتے، ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے، کھانے پکاتے اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور ان سب چیزوں کو شارع علیہ السلام کی طرف منسوب کرتے ہیں ، تو کیا اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث وارد ہے یا نہیں ؟ اور اگر اس بارے میں کوئی صحیح حدیث وارد نہیں ہے تو کیا یہ سب کچھ بدعت کے زمرے میں آئے گا یا نہیں ؟ انہوں نے جواب دیا: اس بارے میں کوئی صحیح حدیث نہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد ہے اور نہ آپ کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم سے۔ نہ تو مسلمانوں کے ائمہ میں اور ائمہ اربعہ میں سے کسی نے اسے مستحق سمجھا ہے اور نہ کسی اور نے۔ معتمد کتابوں کے مؤلفین نے بھی اس بارے میں کوئی چیز روایت نہیں کی، نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اور نہ تابعین رحمہم اللہ سے، نہ کوئی صحیح چیز اور نہ ضعیف، نہ کتب
|