’’رہا اہل بیت کو قیدی بنانے اور انہیں ننگی پیٹھ کے اونٹوں پر سوار کرانے کا سوال، تو یہ انتہائی قبیح اور واضح جھوٹ اور زنادقہ اور منافقین کی افترا پردازی ہے جس سے ان کے پیش نظر اسلام اور اہل اسلام پر اعتراضات کی بوچھاڑ کرنا ہے، وہ اہل بیت ہوں یا دوسرے مسلمان، اس لیے کہ جو شخص اس قسم کی باتوں اور ان میں موجود کذب و افترا کو سنے گا وہ یہی سمجھے گا کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے معجزات اور اولیاء کی کرامات بھی اس جنس سے ہیں ۔‘‘
پھر جب یہ بات واضح ہو جائے گی کہ امت نے اپنے نبی کے اہل بیت کے ساتھ اسی قسم کا ناروا سلوک کیا تو اس سے اس بہترین امت پر اعتراض آئے گا جسے لوگوں کے لیے نکالا گیا، اس لیے کہ ہر عاقل شخص اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ خراسانی اونٹ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور اہل بیت کے وجود سے پہلے بھی موجود تھے اور اس طرح موجود تھے جس طرح دوسرے اونٹ، بکریاں ، گائیں ، گھوڑے اور خچر موجود تھے۔‘‘[1]
مگر یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ تاریخ طبری اور تاریخ ابن عساکر جیسے اسلامی تاریخی مصادربھی ان جیسی خرافات سے بھرے پڑے ہیں ۔ یہ صورت حال اس امر کی متقاضی ہے کہ ان دونوں کتابوں کی خاص طور پر اور دیگر تاریخی کتب کی عام طور پر علمی تحقیق کی جائے۔[2]
|