۲۔ آیۃ العظمی محسن الحکیم طباطبائی۔[1]
۳۔ آیۃ العظمی ابو القاسم الخوئی۔ موصوف لکھتے ہیں : ’’شیخ الاستاذ قدس سرہ نے بصری استفتاء کے جواب میں جو کچھ رقم کیا ہے وہ صحیح ہے اور اس پر عمل کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔[2]
۴۔ آیۃ العظمی الامام محمود الشاہرودی۔[3] ۵۔ آیۃ اللہ الشیخ محمد حسن المظفر۔[4]
۶۔ آیۃ اللہ العظمی حسین الحمامی الموسوی۔[5] ۷۔ آیۃ اللہ محمد الحسین آل کاشف العظاء۔[6]
۸۔ آیۃ اللہ العظمی محمد کاظم شیرازی۔[7] ۹۔ آیۃ اللہ جمال الدین الکلبایکانی۔[8]
۱۰۔ آیۃ اللہ کاظم المرعشی۔ [9] ۱۱۔ آیۃ اللہ مہدی المرعشی۔[10]
۱۲۔ آیۃ اللہ علی مدد الموسوی الفاینی۔ [11] ۱۳۔ آیۃ اللہ الشیخ یحییٰ النوری۔ [12]
شیخ مرتضی عیاد لکھتا ہے:
’’اہل تشیع کے معتبر علماء و فقہاء کی ایک جماعت نے اس موضوع کے جواز کا فتویٰ دیا ہے جن کے ذکر کا احصاء اس مقام پر ممکن نہیں ۔‘‘ [13]
اس کے بعد شیخ مرتضی عیاد نے متعدد علماء کی تحریریں نقل کی ہیں جو ان بدعات کے جواز کو بتلاتی ہیں ۔ ہم ان تحریروں میں سے صرف ایک جملہ کے نقل پر اکتفا کرتے ہیں جسے ان حضرات کے بقول علامہ کبیر، زاہد، الورع، المحدث اور آیۃ اللہ جیسے بھاری القاب کے مالک مشہور شیعی عالم شیخ خضر بن شلال العفکاوی نے تحریر
|