باری تعالیٰ ہے:
﴿لِکُلِّ اَجَلٍ کِتَابٌ﴾ (الرعد: ۳۸) ’’ہر وقت کے لیے ایک کتاب ہے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿وَ مَا کَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ کِتٰبًا مُّؤَجَّلًا وَ مَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْتِہٖ مِنْہَا وَ مَنْ یُّرِدْ ثَوَابَ الْاٰخِرَۃِ نُؤْتِہٖ مِنْہَا وَ سَنَجْزِی الشّٰکِرِیْنَ﴾ (آل عمران: ۱۴۵)
’’اور کسی جان کے لیے کبھی ممکن نہیں کہ اللہ کے حکم کے بغیر مر جائے، لکھے ہوئے کے مطابق جس کا وقت مقرر ہے، اور جو شخص دنیا کا بدلہ چاہے ہم اسے اس میں سے دیں گے اور جو آخرت کا بدلہ چاہے اسے اس میں سے دیں گے اور ہم شکر کرنے والوں کو جلد جزا دیں گے۔‘‘
اور اس بات پر بھی ہر مومن کا ایمان ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرما دیا گیا تو اس کے بعد اس دنیا میں کسی کو بقا اور دوام نہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿اِِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَo﴾ (الزمر: ۳۰)
’’بے شک تو مرنے والا ہے اور بے شک وہ بھی مرنے والے ہیں ۔‘‘
اور اس بات پر بھی سب کا ایمان ہے کہ حیلہ و تدبیر تقدیر کے آگے کارگر نہیں ۔
ہر مومن کا اس بات پر بھی پکا ایمان ہے کہ جناب سیّدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو لسان نبوت سے جنت کی بشارت مل چکی ہے جو ایک اٹل حقیقت ہے اور جنت کے حصول کے لیے بے پناہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور ہمارا اس بات پر بھی ایمان ہے کہ جناب سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اور آپ کے اہل بیت کو جو بھی حوادث پیش آئے، وہ آپ کے رفع درجات اور تکفیر سیئات کے لیے تھے۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت امت مسلمہ کو اس بات کا عظیم درس دیتی ہے کہ جنت کا راستہ، یہ وفا کا راستہ ہے۔ اس راستے میں جان دینا پڑتی ہے۔ یہاں ہر سو کانٹے بکھرے ہیں ۔ یہاں راحت و آرام نام کی کوئی چیز نہیں ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
راہ وفا میں ہر سو کانٹے
دھوپ بہت اور سائے کم
اگر کسی پیکر حسن و جمال کو نکاح کا پیغام بھیجنا ہے تو پھر خطیر مہر کے لیے تیار رہیے۔ جب ریحانہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو راہ حق میں یوں شہید کر دیا گیا تو کیا راہ حق پر چل کر سنت کی نصرت و حمایت کرنے والے
|